حکومت سی ایس ایس کے نظام میں بہتری کے لئے سینٹ تجاویز کا خیر مقدم کرے گی ،ْ شیخ آفتاب احمد

معاملے کو پورے ایوان کی کمیٹی یا سینٹ کی کمیٹی میں لائے جانے پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہے ،ْ سینٹ میں اظہار خیال سی ایس ایس کے نظام میں مزید بہتری کے لئے معاملہ حکومت کو بہتر سفارشات کے لئے کمیٹی کے سپرد کیا جائے ،ْ سینیٹر مظفر شاہ کی تجویز

پیر 16 جنوری 2017 21:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2017ء)وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے سینٹ کو بتایا ہے کہ حکومت سی ایس ایس کے نظام میں بہتری کے لئے سینٹ تجاویز کا خیر مقدم کرے گی‘ اس معاملے کو پورے ایوان کی کمیٹی یا سینٹ کی کمیٹی میں لائے جانے پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پیر کو اجلاس کے دوران چوہدری تنویر خان کی تحریک کہ یہ ایوان مقابلے کے امتحان سی ایس ایس کے لئے وضع شدہ طریقہ کار میں تبدیلی کی ضرورت کو زیر بحث لائے پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ ملک میں سی ایس ایس کا نظام احسن طریقے سے چل رہا ہے۔

اس نظام میں یہ خوبی ہے کہ محض سادہ گریجویٹ شخص بھی اس میں شامل ہوکر آفیسر بن سکتا ہے‘ یہ نظام ایک عرصے سے غیر متنازعہ نظام تصور کیا جاتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

2016ء میں حکومت نے اس میں بعض ترامیم کی ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ہر نظام میں بہتری کی گنجائش رہتی ہے اور اگر اس حوالے سے پورے ایوان کی کمیٹی یا سینٹ کی کمیٹی اس حوالے سے کوئی سفارشات دینا چاہے تو حکومت اس کا خیر مقدم کرے گی۔

اس موقع پر چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اگر اراکین اس کو پورے ایوان کی کمیٹی میں لانا چاہتے ہیں تو وہ قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق اور قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ قبل ازیں سینیٹر چوہدری تنویر خان نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان سی ایس ایس کے امتحان کے لئے وضع شدہ طریق کار میں تبدیلی کی ضرورت کو زیر بحث لائے۔

تحریک پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی کا نظام 1854ء میں رائج ہوا۔ انگریزوں نے عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ نظام بنایا۔ موجودہ نظام عوام کو کنٹرول کرنے کی بجائے عوام کی خدمت کرنے کے لئے ہونا چاہیے۔ اس سسٹم کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کئی دہائیوں سے وہی پرانے سروس گروپ چل رہے ہیں جبکہ کئی نئے شعبے بن چکے ہیں جن کی اپنی ضروریات ہیں۔

جیسے طب‘ انجینئرنگ اور آئی ٹی کا شعبہ‘ سی ایس ایس کا رزلٹ ایک سال بعد آتا ہے۔ ہر شعبے کے افسران کے لئے متعلقہ شعبہ میں مہارت رکھنے والوں کو منتخب کیا جائے۔ سی ایس ایس امتحان کے حوالے سے شفافیت لائی جائے۔ بنیادی قابلیت بی اے کی بجائے ایم اے کی جائے۔ کلسٹر کی بنیاد پر امتحان لیا جائے۔ اختیاری مضامین بھی متعلقہ گروپ سے ہی ہونی چاہئیں۔

سپیشل کیڈر کا آغاز کیا جائے تاکہ ہائر گریڈز میں مختلف شعبوں کے ماہرین آسکیں۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ سی ایس ایس امتحان کے ذریعے اردو سے ناآشنا لوگ آتے ہیں۔ یہ سسٹم انگریزی زبان کی بنیاد پر بنا ہے۔ انجینئرنگ اور میڈیکل کرکے آنے والے پولیس میں چلے جاتے ہیں۔ 12 کی بجائے 4 مرکزی گروپ ہونے چاہئیں۔ آرٹس کے مضامین میں کم نمبر آتے ہیں۔

سائنس میں پورے نمبر حاصل کرکے امیدوار بہتر پوزیشن حاصل کرلیتے ہیں۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ہم اپنی زبان پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ تجویز کیا کہ اس معاملے کو پورے ایوان کی کمیٹی میں لے جائیں‘ بہت سارے اراکین اس پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ چوہدری تنویر نے بہت اہم معاملہ اٹھایا ہے یہ سپیشلائزیشن کا دور ہے۔

اس پر تفصیلی بحث کرکے حکومت کو مناسب تجاویز دیں۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ سی ایس ایس پر مزید قدغن نہ لگائی جائے اس سے غریب کے لئے مواقع کم ہوں گے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ دیہات کے بچے انگریزی میں کمزور ہونے کے باعث سی ایس ایس میں مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ براہوی زبان کا مضمون بھی اس میں شامل کیا جائے۔ سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ سی ایس ایس والوں کو عموماً ایڈمنسٹریٹر نوکریاں دی جاتی ہیں حالانکہ اپنے شعبے کا ماہر اس شعبے میں زیادہ کارگر ہوتا ہے۔

لوگ زیادہ سی ایس ایس کی طرف رخ کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک کامیاب ملازمت تصور ہوتی ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ سی ایس ایس کے نظام میں مزید بہتری کے لئے معاملہ حکومت کو بہتر سفارشات کے لئے کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔