ملک میں کھانے پینے کی تیار ہونیوالی ہزاروں اشیاء کیلئے کوئی قانون موجود ہی نہیں،چوہدری طارق شہید چیمہ

لوگوں میں مہلک بیماریاں پیدا ہورہی ہیں،پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں،چیئرمین قائمہ کمیٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اشیاء خوردونوش کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے وزارت کوشش کر رہی ہے،سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمیٹی متعلقہ حکام سے تین سالہ کارکردگی کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی

پیر 16 جنوری 2017 20:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 جنوری2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چیئرمین چوہدری طارق شہید چیمہ نے کہا ہے کہ ملک میں کھانے پینے کی ہزاروں ایسی اشیاء تیار ہورہی ہیں جن کے لئے ملک میں کوئی قانون موجود ہی نہیں،جن سے لوگوں میں مہلک بیماریاں پیدا ہورہی ہیں،پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اجلاس میں کیا۔کمیٹی اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے بتایا کہ اشیاء خوردونوش کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے وزارت کوشش کر رہی ہے۔اس موقع پر ممبران کمیٹی نے وزارت کے حکام سے سوال پوچھا کہ اس وقت ملک میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو کہ مکمل طور پر خالص تیار ہورہی ہے۔

(جاری ہے)

ہسپتال میں بھی کھانے کی کوئی چیز دستیاب نہیں ہوتی،دودھ،گھی اور پانی کے سینکڑوں کارخانے غیر قانونی طور پر کام کررہے ہیں اور مضر صحت اشیاء بنا رہے ہیں ان کو پوچھنے والا ہی کوئی نہیں،متعلقہ حکام کمیٹی کو اپنی تین سالہ کارکردگی کی تفصیلی رپورٹ پیش کرے ۔جس پر ڈی جی پاکستان کوالٹی کنٹرول اتھارٹی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے زمرے میں108 اشیاء آتی ہیں جن کو ہم چیک کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ500 لوگوں پر مشتمل عملہ اس پر کام کرنے کیلئے ناکافی ہے اس سلسلے میں ہم نئے لوگ بھرتی کر رہے ہیں اور جہاں کہیں سے ہمیں شکایت موصول ہوتی ہے ہم کارروائی کرتے ہیں۔کمیٹی میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ملک میں اس وقت سب سے زیادہ پانی بنانے والی فیکٹریا ں کام کررہی ہیں جس پر حکام نے بتایا کہ پانی کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں ہونے کے باعث اگر ہم کہیں کارروائی کرتے ہوئے بند کرتے ہیں تو وہ اپنی مشینیں اٹھا کر کسی دوسرے مکان میں رکھ لیتے ہیں اور نئے ناموں سے آجاتے ہیں۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے محمد علی خان نے کہا کہ ملک میں اس وقت ظلم ہورہا ہے کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہئے جو ہماری نسلوں کا قتل کر رہے ہیں،انہیں کسی صورت معاف نہیں کرنا چاہئے۔دودھ کے حوالے سے سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا جو کہ متعلقہ منسٹری کے منہ پر طمانچہ ہے جس پر سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور محمد علی خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کہا کہ طمانچہ لفظ وزارت کیلئے درست نہیں ہمیں سب سے پہلے وزارت اور ملازمین کی عزت عزیز ہے ۔ جس پر ممبر کمیٹی محمد علی خان نے کہا کہ آپ کی وزارت کو پاکستان کے بچوں کی زندگیوں سے زیادہ اپنی وزارت کی عزت عزیز ہے۔چیئرمین کمیٹی نے مداخلت کرتے ہوئے ماحول کو ٹھنڈا کیا اور پاکستان کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کو ہدایت جاری کی کہ وہ ایک ماہ کے اندر پانی،بناسپتی گھی اور دودھ کے حوالے سے رپورٹ پیش کریں اور اپنے ادارے کی تین سالہ کارکردگی بھی کمیٹی کے اگلے اجلاس میں پیش کریں۔

اجنڈ نمبر2(پی ایس کیو سی ای) کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی سمیت تمام ممبران کمیٹی نے اس بل کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ڈی جی(PSQCA) کی بریفنگ سننے سے انکار کردیا۔ممبران کا کہنا تھا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کو روزگار مہیا کرے اس بل میں تو200 لوگوں کا روزگار ختم کیا جارہا ہے ہم کیسے اس کی حمایت کرسکتے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی متعلقہ وزارت سے سفارش کرتی ہے کہ اس بل میں اگر یہ ترمیم کی جائے کہ یہ ایک متعلقہ ڈیپارٹمنٹ ہے تو اس صورت میں ہم اس کی حمایت کرسکتے ہیں۔۔۔(ولی/راٹھور)

متعلقہ عنوان :