سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کا بینظیر بھٹو قتل کیس میں سست پیش رفت پراظہار تشویش ، ایف آئی اے سے رپورٹ طلب

پاکستان کی تاریخ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سب سے بڑا واقعہ اور مقدمہ بے نظیر بھٹو کا ہے ، قانون کے تحت 7 دنوں میں مقدمے کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا ،آٹھ سال گزر گئے ، درجن سے زائد پراسیکوٹر مقرر ہوئے، سماعت کرنے والے موجود ہ جج کو تبدیل کر دیا گیا، وزارت انسانی حقوق اپنا فرض ادا کرے، کب تک مقدمے کا فیصلہ ہو جائے گا، تاخیر کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے،سینیٹر بابر اعوان فنکشنل کمیٹی کا چیف کمشنر ،آئی جی اسلام آبادپولیس ، ہوم سیکرٹری پنجاب،صوبائی سیکرٹری امور قبائلی علاقہ جات اور کمشنر مالاکنڈ کی اجلاس میں عدم شرکت پر تحریک استحقاق لانے کافیصلہ

پیر 16 جنوری 2017 17:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 جنوری2017ء) سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق نے بے نظیر بھٹو شہید قتل کیس میں سست پیش رفت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید قتل مقدمے کی سماعت اور پیش رفت کے بارے میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے ذریعے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی۔

کمیٹی رکن سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سب سے بڑا واقعہ اور مقدمہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا ہے ، قانون کے تحت 7 دنوں میں مقدمے کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا ،آٹھ سال گزر چکے ہیں ، درجن سے زائد پراسیکوٹر مقرر ہوئے، ایک پراسیکوٹر قتل ہوگیا اور مقدمہ سننے والے موجود ہ جج کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے، وزارت انسانی حقوق اپنا فرض ادا کرے، کب تک مقدمے کا فیصلہ ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

تحریری طور پر تاخیر کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے ۔ کمیٹی نے آئی جی اسلام آباد پولیس ، کمشنر اسلام آباد، ہوم سیکرٹری پنجاب، فاٹا ، قبائلی امور کے سیکرٹری خیبر پختونخواہ اور کمشنر مالاکنڈ کی اجلاس میں عدم شرکت پر تحریک استحقاق لانے کافیصلہ کیا۔پیر کو کمیٹی کا اجلاس قائمقام چیئر مین سینیٹر محمد محسن خان لغاری کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا ۔

اجلاس میں کمیٹی ارکان کے علاوہ سیکرٹر ی وزارت انسانی حقوق ، چیئرمین قومی کمیشن انسانی حقوق ، اے آئی جی پولیس پنجاب ، آر پی او ملتان اور دیگراعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ آئی جی اسلام آباد پولیس ، کمشنر اسلام آباد، پنجاب حکومت کے ہوم سیکرٹری، فاٹا اور قبائلی امور کے سیکرٹری خیبر پختونخواہ اور کمشنر مالاکنڈ کی اجلاس میں عدم شرکت اورکمیٹی کو تحریری طور پر جواب نہ دینے پر چیئر مین سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ پارلیمنٹ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پارلیمانی کمیٹی کا اختیار عدالت کے برابر ہے ،کسی کو بھی بذریعہ سمن طلب کیا جا سکتا ہے ،کمیٹی کی طرف سے تحریک استحقاق لائیں گے۔

کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ کے حوالے سے وزارت کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ 28 دسمبر کو ایک ٹیلی فون کال پر بچی پر تشدد کے بارے میں آگاہ کیا گیا ۔ جس پر ون فائیو پولیس ایمرجنسی کو اطلاع دی گئی ۔چھاپہ مارنے پر بچی غائب تھی ۔ دوسرے دن پھر فون پر اطلاع دی گئی چھاپہ کے دوران بچی گھر سے برآمد ہوئی ۔ تین جنوری کو طیبہ عطاء ربانی جج کی عدالت میں پیش کی گئی ۔

والدین کو راضی نامہ پہلے ہو چکا تھا ۔ بچی بعد میں پیش ہوئی ۔ معاملے کی سپریم کورٹ تحقیق کر رہی ہے ۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی مدد کی اور اسلام آباد پولیس کی کارکردگی بھی اچھی ہے ۔ اب بچی سویٹ ہوم میں ہے ۔ صدر نشین کمیٹی سینیٹر محسن لغاری نے پوچھا کہ اسلام آباد انتظامیہ اور اسلام آباد پولیس کی طرف سے جواب دینے کیلئے کون موجود ہے ۔

جس پر آگاہ کیا گیا کہ آئی جی اسلام آبا دپولیس دفترسے کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ سے اجازت لی جائے ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پوچھا جائے کہ افسران کس کی ہدایت پر کمیٹی میں نہیں آئے ۔ پولیس کا بھی اجلاس میں نہ آنا ثابت ہے کہ اعلیٰ سطح پر روکا گیا ۔ سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ ایک دن میں ایف آئی آر ، راضی نامہ ، ضمانت مشکوک عمل ہے ۔

کیا اسلام آبا دپولیس نے درخواست ضمانت منسوخی دائر کی ہے ۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے چیئرمین جسٹس (ر) علی نواز چوہان نے کہا کہ کمیشن نے طیبہ کے معاملے کی تحقیقات شروع کی ہوئی ہیں۔ اسلام آبا دپولیس کے ذریعے گھروںکا مکمل سروے کیا جائے ۔ سیکرٹری وزارت انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ اسلام آباد کے لئے چائلڈ پروٹیکشن بل کا ڈرافٹ بن رہا ہے ۔ قانونی اصلاحات کابینہ کمیٹی سے منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔(رڈ)