ْقائمہ کمیٹی سرحدی امور اجلاس ، فاٹا سیکرٹریٹ میں 159افراد کے جعلی کاغذات پر بھرتیوں کا انکشاف

آئندہ اجلاس میں جعلی بھرتی ہونے والے افراد کی لسٹ اور دیگر تفصیلات طلب، ان افراد نے پبلک سروس کمیشن کے کاغذات میں جعلی طریقے سے نام درج کروا کر نوکریاں حاصل کر رکھی ہیں،انکے خلاف انکوائری شروع تو ہوئی ، ابھی تک متعلقہ افراد تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے،قیصر جمال انکوائری مکمل ہونے تک متعلقہ افراد کی تنخواہیں نہیں روک سکتے، متعلقہ افراد کیخلاف کارروائی یا نوکری سے نکالنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں، ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا سیکرٹریٹ فاٹا میں شہدا فنڈ ریلیز نہ ہونے کے معاملے پر وفاقی وزیر سیفران اور جوائنٹ سیکرٹری میں اختلافات پیدا ہو گئے شہدا کے بچوں کیلئے جب فنڈز مانگتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے خیرات مانگ رہے ہیں، شہدا کو حق نہیں مل رہا، سیکرٹری سیفران حکومت میں ہیں ، شکایات نہیں کر سکتے،فنڈ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، وزیر اعظم سے بات کرونگا، وفاقی وزیر

پیر 16 جنوری 2017 16:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 جنوری2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سرحدی امور کے اجلاس میں فاٹا سیکرٹریٹ میں 159افراد کے جعلی کاغذات پر بھرتیوں کا انکشاف،کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں جعلی بھرتی ہونے والے افراد کی لسٹ اور دیگر تفصیلات طلب کر لیں،رکن کمیٹی قیصر جمال نے کہا کہ ان افراد نے پبلک سروس کمیشن کے کاغذات میں جعلی طریقے سے نام درج کروا کر نوکریاں حاصل کر رکھی ہیں،انکے خلاف انکوائری شروع تو ہوئی تاہم ابھی تک متعلقہ افراد تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے،ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا سیکرٹریٹ نے آگاہ کیا کہ انکوائری مکمل ہونے تک متعلقہ افراد کی تنخواہیں نہیں روک سکتے، پبلک سروس کمیشن کے پی کے حکومت کا ادارہ ہے، ان کے ساتھ معاملہ اٹھایا، کئی مرتبہ یاد دہانی بھی کروائی گئی لیکن ادھر سے کوئی جواب نہیں آیا، پبلک سروس کمیشن سے بھی رابطہ کیا گیا انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا، متعلقہ افراد کیخلاف کارروائی یا نوکری سے نکالنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں، پبلک سروس کمیشن ہی اس حوالے سے کارروائی کر سکتا ہے،اجلاس میں فاٹا میں شہدا فنڈ ریلیز نہ ہونے کے معاملے پر وفاقی وزیر سیفران اور جوائنٹ سیکرٹری سیفران میں اختلافات پیدا ہو گئے، سیکرٹری سیفران نے کہا کہ شہدا کے بچوں کیلئے جب ہم فنڈز مانگتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے خیرات مانگ رہے ہیں، افسوس کی بات ہے فاٹا کے شہدا کو حق نہیں مل رہا، جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم حکومت میں ہیں ، ہم اس طرح کی شکایات نہیں کر سکتے،فنڈ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس سلسلے میں وزیر اعظم سے بات کرونگا۔

(جاری ہے)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سرحدی امور کا اجلاس پیر کو چیئرمین جمال الدین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں ممبران کمیٹی غالب خان، بیگم طاہرہ بخاری، عفت لیاقت، اسماء، ممدوٹ، ثریا جتوئی،آفتاب میرانی، محمد کمال، بلال رحمان، ناصر خان، صاحبزادہ طارق اللہ، شاہد حسین،وفاقی وزیر برائے سرحدی امور، سیکرٹری سرحدی امور، ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں فاٹا میں تعلیمی شعبہ کی بہتری کیلئے اقدامات جنوبی وزیرستان ایجنسیز میں بجلی کے منصوبوں سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری فاٹا کی غیر حاضری پر وزیر اور کمیٹی اراکین نے برہمی کا اظہار کیا، وعاقی وزیر نے کہا کہ فاٹا سیکرٹری کے سیفران کمیٹی میں نہ آنے سے کمیٹی کا وقار مجروح ہوتا ہے۔اجلاس میں طالبان کے خلاف لشکر بنانے میں خرد برد کا انکشاف ہوا۔

حکام نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف لشکر بنانے کیلئے 25 کروڑ روپے دئے گئے۔ کمیٹی چیئرمین نے سوال کیا کہ پیسے کہاں خرچ ہوئے۔ رکن کمیٹی قیصر جمال نے کہا کہ اخراجات کی تفصیل دی جائے کہ کس نے پیسے کھائے۔ رکن کمیٹی صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ لگتا ہے لشکر کے پیسے طالبان کو دئے گئے۔ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ ملک میں ہر جگہ کرپشن ہے، افغان مہاجرین کے منصوبوں میں بھی کرپشن ہو رہی ہے۔

رکن کمیٹی قیصر جمال نے کہا کہ آپ کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں۔رکن کمیٹی غالب خان نے کہا کہ وزیر صاحب فاٹا آپ کی وزارت ہے وہاں بھی کرپشن ہے، فاٹا میں کرپشن روکنے کیلئے الگ ذیلی کمیٹی ہونی چاہیے۔وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ کمیٹی چاہے تو چیف کمشنر آفس میں افغان مہاجرین پراجیکٹ پر بریفنگ کا اہتمام کیا جاسکتاہے، چاروں چیف کمشنر کو بلاکر بریفنگ دے سکتے ہیں۔

ارکان کمیٹی نے رائے دی کہ ہم پہلے بھی بریفنگ لے چکے، ہمیں عملا بتایا جائے کہ کیا کام ہوا۔ کمیٹی نے معاملے کو آئندہ اجلاس میں زیر بحث لانے کا فیصلہ کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں چیف کمشنرز کمیٹی کو اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی جائے۔ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے تجویز دی کہ 2009 سے 2017 کے درمیان جاری رقوم اور ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات فاٹا سیکرٹریٹ سے منگوائی جائے، تفصیلات آنے سے حقیقت کھل کر سامنے آجائیگی، پچھلی تفصیلات سامنے آنے سے آئندہ بجٹ بنانے کیلئے رہنمائی حاصل ہوگی۔

چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ فاٹا خصوصا جنوبی وزیرستان کے حوالے سے 10کروڑ کے منصوبوں کا گورنر نے اعلان کیا وہ کام کہاں تک پہنچے۔سیفران حکام نے جواب دیا کہ ابھی تک فنڈز ہی منظور نہیںہوئے جس پر چیئرمین کمیٹی نے انااللہ اناعلیہ راجعون پڑھ دیا اور کہا کہ گورنر کا اعلان ہواہوگیا، کیا یہ جھوٹ بولا گیا،گورنر کی منظوری کے بعد کونسی منظوری رہ جاتی ہے۔

سیفران افسران اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ چیئرمین جمال الدین نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لئے گورنر کا اعلان پتھر پر لکیرہے، اس معاملے کو چھوڑینگے نہیں۔اجلاس میں فاٹا میں شہدا فنڈ ریلیز نہ ہونے کے معاملے پر وفاقی وزیر سیفران اور جوائنٹ سیکرٹری سیفران میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ سیکرٹری سیفران نے کہا کہ فاٹا میں شہدا کے بچوں کے فنڈز ریلیز نہیں ہوتے، شہدا کے بچوں کیلئے جب ہم فنڈز مانگتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے خیرات مانگ رہے ہیں، افسوس کی بات ہے فاٹا کے شہدا کو حق نہیں مل رہا،فاٹا میں لیویز شہدا کیلئے مثالی شہدا پیکج موجود ہے لیکن وزارت خزانہ فنڈ جاری نہیں کرتا،وزارت خزانہ حکام پہلے فنڈز سے انکار اور بعد میں تاخیری حربوں سے کام لیتے ہیں جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم حکومت میں ہیں ، ہم اس طرح کی شکایات نہیں کر سکتے،فنڈ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس سلسلے میں وزیر اعظم سے بات کرونگا۔

رکن کمیٹی غالب خان نے کہا کہ وزارت خزانہ والے فاٹا کے فنڈز کو روک کر منافع کما رہے ہیں۔ قیصر جمال نے کہا کہ باجوڑ سے لیویز کے 25اہلکاروں کو دہشت گردوں نے اٹھایا تھا، وہ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ فاٹا،کراچی سمیت پورے ملک میں امن کے بحالی میں پاک فوج نے کلیدی کردار ادا کیا۔اجلاس میں رکن کمیٹی قیصر جمال نے انکشاف کیا کہ فاٹا سیکرٹریٹ میں 159افراد نے پبلک سروس کمیشن کے کاغذات میں جعلی طریقے سے نام درج کروا کر نوکریاں حاصل کر رکھی ہیں، انہوں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا، انکوائری شروع ہوئی لیکن ابھی تک متعلقہ افراد تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا سیکرٹریٹ نے کمیٹی کا آگاہ کیا انکوائری جاری ہے، مکمل ہونے تک متعلقہ افراد کی تنخواہیں نہیں روک سکتے، پبلک سروس کمیشن کے پی کے حکومت کا ادارہ ہے، ان کے ساتھ معاملہ اٹھایا، کئی مرتبہ یاد دہانی بھی کروائی گئی لیکن ادھر سے کوئی جواب نہیں آیا، انکوائری کا آغاز 6ماہ پہلے کیا گیا تھا، پبلک سروس کمیشن سے بھی رابطہ کیا گیا انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا، متعلقہ افراد کیخلاف کارروائی یا نوکری سے نکالنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں، پبلک سروس کمیشن ہی اس حوالے سے کارروائی کر سکتا ہے۔

رکن کمیٹی غالب خان نے کہا کہ ایک ہفتے میں انکوائری ہو سکتی تھی، مواملہ میرے سپرد کریں ایک ماہ میں انکوائری کر دوں گا۔ قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں جعلی بھرتی ہونے والے 159افراد کی لسٹ اور دیگر تفصیلات فراہم کی جائیں

متعلقہ عنوان :