ْپاکستان افغانستان میں تشدد میں کمی اور افغان امن عمل کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے ،

داعش کا نیٹ ورک افغانستان میں پھیل رہا ہے ، روس اور چین بھی طالبان کو نہیں بلکہ داعش کو بڑا خطرہ سمجھتے ہیں سرتاج عزیز کی نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو

ہفتہ 14 جنوری 2017 23:00

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جنوری2017ء) وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں تشدد میں کمی اور افغان امن عمل کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے ، 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ ن نے جب اقتدار سنبھالا تو وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں بہت اہم فیصلہ کئے گئے کہ ہم عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کریں گے اور ہمارا وہاں کوئی فیورٹ نہیں جس کا بہت اچھا اثر بھی ہوا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کو ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ستمبر 2014ء میں جب افغانستان میں اشرف غنی نے اقتدار سنبھالا تو ایک اچھا آغاز ہوا اور وہ نومبر 2014ء میں پاکستان بھی آئے اور ہمارے دوطرفہ تعلقات بہتر ہونا شروع ہوئے لیکن 2015ء میں جب وہاں حالات خراب ہوئے اور وہاں بدامنی و انتشار میں اضافہ ہوا تو پھر غلط فہمیاں پیدا ہونا شروع ہوئیںلیکن ہم نے افغان صدر اشرف غنی کو یقین دلایا کہ ہم افغان امن عمل کے لیے مخلص ہیں، اور 12مئی 2015ء کو وزیراعظم محمد نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کابل میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ ہم اپنی سرزمین کسی کے خلاف خصوصاً افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ،ہم اب بھی اس پالیسی پر قائم ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندرونی مسائل بھی وہاں بدامنی کی ایک اہم وجہ ہیں، ہمارے اقدامات سے ان کے اندرونی مسائل تو حل نہیں ہونگے لیکن اب دنیا کو یہ ضرور یقین ہوتا جا رہا ہے کہ زیادہ تر طالبان فورسز خود کو افغانستان میں مقیم کر چکے ہیں، دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کے لیے بارڈر سکیورٹی مینجمنٹ بہت ہی ضروری ہے جس پر ہم کام کر رہے ہیں تاکہ سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے جس کے بعد بغیر قانونی دستاویزات کے کوئی نہیں آسکے گا اور نہ ہی کوئی جا سکے گا، ایک سوال کے جواب میں مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ این ڈی ایس اور راء مل کر ہمارے خلاف سازشیں تو کرتے ہی ہیں لیکن مجموعی طور پر اب سب کو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ ہم افغان امن عمل میں مخلص ہیں، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ داعش کا نیٹ ورک افغانستان میں پھیل رہا ہے اور روس اور چین کو یہ خیال ہے کہ اس وقت طالبان افغانستان کے لیے زیادہ بڑا خطرہ نہیں بلکہ داعش بڑا خطرہ ہے، اسی لیے ماسکو میں ہونے والی 27دسمبر کی میٹنگ میں جس میں پاکستان، چین اور روس شامل تھے میں طالبان کو مرکزی دھارے میں لانے پر بات بھی ہوئی کیونکہ روس کو بھی یہ خطرہ ہے کہ شام اور عراق سے شکست کے بعد داعش کے ایشیا میں داخلے ہونے کا خطرہ ہے، تینوں ممالک نے اس بات پر متفقہ فیصلہ کیا کہ داعش ایک بہت بڑا خطرہ ہے جس کے لیے ریجنل اپروچ کی ضرورت ہے، اگلے مرحلے میں ہم افغانستان کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکا کی نئی ٹرمپ انتظامیہ بھی داعش کو بڑا خطرہ قرار دے رہی ہے، ایک اور سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ خطے میں امن، داعش کا خاتمہ اور افغان امن عمل ہمارے اور امریکا کے مشترکہ مفادات ہیں اس لیے ہم امریکہ کی نئی انتظامیہ سے ضرور رابطہ کریں گے تاکہ ایجنڈے کو ریویو کیا جا سکے، ہمیں امید ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ حکومت کا بیانیہ بھی مختلف ہوگا کیونکہ مل کر ہی علاقائی امن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارتی آرمی چیف کا بیان ہمارے موقف کی تائید کرتا ہے کہ بھارت نے کولڈ اسٹارک بنایا ہے جس سے وہ اب تک انکار کر رہے تھے جو پاکستان کے لیے خطرہ ہے لیکن اب وہ اسے نہ صرف مان گئے ہیں بلکہ اسے مزید تیز کرنا چاہتے ہیں جس پر ہم بھی اپنے دفاع کو مضبوط بہتر بنائیں گے اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے، انہوں نے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیک کوئی آسان کام نہیں کہ وہ ایسا کر سکیں اور پھر وہ یہ بھی کہیں کہ اور کچھ نہیں ہوگا، انہوں نے کہا کہ دنیا کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ بھارت یہ سب کچھ مقبوضہ کشمیر پر سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے کر رہا ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا بلکہ اصل مسئلہ تو مقبوضہ کشمیر کا ہے جو پھر سے عالمی ایجنڈے پر ٹاپ پہ آچکا ہے اس پر بامقصد بات ہونی چاہیے، مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی سرحدوں پر کشیدگی نہیں بڑھانی چاہیے کیونکہ یہ کشیدگی کسی کے لیے بھی مناسب نہیں اور اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل نے بھی یہی بات کہی ہے اور امید ہے کہ ٹرمپ حکومت بھی مفاہمت کی ہی بات کرے گی، اس لیے بھارت کو ان تمام ہدایات پر توجہ دینی چاہیے تاکہ کشیدگی میں کمی آ سکے اور کشمیر سمیت تمام مسائل حل ہو سکیں، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت سفارتی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنا چاہتی تھی جس میں اسے ناکامی ہوئی اور اب وہ سی پیک کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے جس میں بھی اسے سوائے ناکامی اور مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹونے بھی تو وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا تھا اور وہ خود ہی یہ ذمہ داریاں سنبھالتے تھے ۔

باقی وزیر خارجہ کا جو کام ہوتا ہے وہ میں اور طارق فاطمی مل کر بڑی محنت سے بہتر طریقے سے کر رہے ہیں اور دنیا کے ہمارے تعلقات میں کوئی کمی یا کوتاہی نظر نہیں آتی، یہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی صوابدید ہے وہ جب بھی چاہیں گے یہ ذمہ داری کسی اور کو دے دیں گے لیکن ورکنگ لیول پہ کوئی مسئلہ نہیں اور وزارت خارجہ اپنا کام بہتر طریقے سے کر رہی ہے۔