کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ مکمل طور پر قانونی ہے، سردار محمد مسعود خان

ستر سال گزرنے کے باوجود مسئلے کو اصل حالت میں زندہ رکھنا وزارت خارجہ اور دفتر خارجہ کی بڑی کامیابی ہے، صدر آزاد کشمیر مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے خون سے تاریخ رقم کر رہے ہیں، انہیں اس سے بڑے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت 18 کروڑ عوام کا ملک ہے ۔ جو کسی بھی حوالے سے بھارت سے کمزور نہیں، گول میزکانفرنس سے خطاب

ہفتہ 14 جنوری 2017 17:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جنوری2017ء) صدر آزاد جموں و کشمیر سردار محمد مسعود خان نے کہا ہے کہ کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ مکمل طور پر قانونی ہے جو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے ۔ ایک خطہ یا ٹیلی فون کال کے ذریعے اسے زیر بحث لایا جا سکتا ہے ۔ ستر سال گزرنے کے باوجود مسئلے کو اصل حالت میں زندہ رکھنا وزارت خارجہ اور دفتر خارجہ کی بڑی کامیابی ہے ۔

مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے خون سے تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ انہیں اس سے بڑے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں ۔ حصول آزادی کے لیے عوام کے اندر خواہش اور جوش و جذبہ ہونا چاہیے ۔ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت 18 کروڑ عوام کا ملک ہے ۔ جو کسی بھی حوالے سے بھارت سے کمزور نہیں ۔آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر پاکستان کے دفاع کے لیے ایک مضبوط ڈھال اور مورچہ ہیں۔

(جاری ہے)

بھارتی فوج کو پاکستان تک پہنچنے کے لیے آزاد کشمیر کے 45 لاکھ عوام سے مقابلہ کرنا پڑے گا ۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے 8لاکھ بھارتی فوج کو وہاں مصروف عمل رکھ کر پاکستان کی طرف سے دیکھنے کی مہلت بھی نہیں دی ۔ سی پیک کو مستقبل میں مقبوضہ کشمیر تک توسیع دی جا سکتی ہے ۔ بھارت کی سول سوسائٹی اور میڈیا کا تعاون حاصل کیا جائے گا ۔ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش ہو گی کہ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے ۔

آزاد کشمیر کا سٹیٹس بڑھانے کے لیے عبوری آئین ایکٹ1974 میں ترامیم پر غور کیا جا رہا ہے۔ ہم آزاد کشمیر کو مثالی ریاست بنائیں گے ۔ پاکستان اور کشمیر ایک دوسرے کے بغیر نا مکمل ہیں ۔ کشمیر پاکستان کا حصہ بنا تو بھارت آبی جارحیت کرے گا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز یہاں مقامی ہوٹل میں جنگ گروپ کے زیر اہتمام گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تقریباً ستر سال گزر نے باوجود یہ مسئلہ نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس کی جنوبی ایشیاء اور عالمی امن کے لیے کلیدی حیثیت کئی گناہ بڑھ گئی ہے ۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ 1947-48 میں اگر تاریخ کے دھارے کو فطری طور پر بڑھنے دیا جاتا، تو آج پورا جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا ۔

لیکن دو وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا ۔ اول ، مہاراجہ کشمیر اور شاہی خاندان کے حکم پر ہندو انتہا پسند وں نے تقریبا ً اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا ۔ جموں میں نسل کشی کی یہ بد ترین مثال تھی ۔ دوسر ے ، ہندوستانی فوج نے وادی کشمیر ، جموں اور لداخ پر 27 اکتوبر 1947 کو قبضہ کر لیا اور یہ غیر قانونی قبضہ آج تک جاری ہے ۔ قتل عام بھی آج تک جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1948 سے لے کر 1957 تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے درجن بھر قرار دادوں میں یہ فیصلہ دیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اہل جموں و کشمیر کی مرضی سے نکالا جائے گا۔ کشمیری عوام ہی اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایک جمہوری طریقے سے رائے شماری کے ذریعے یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ اس طرح اہل جموں و کشمیر کا حق خود ارادیت اصالتاً اور قانوناً محفوظ ہو گیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان سات دہائیوں سے اس حق کے حصول کی راہ میں کھڑا ہے ۔ اُس نے جبر و طاقت سے کشمیریوں کی آواز کوکچلنے کی کوششیںکی ۔ تحریص و ترغیب اور معاشی ترقی کے وعدوں سے ان کے دل جیتنے کی کوششیں کیں۔ ا س نے اپنی حلیف جماعتیں بھی کشمیر میں کھڑی کی ہیں اور دنیا میں کشمیریوں کو بدنام کیا کہ وہ دہشت گرد ہیں، جن کی پشت پناہی پاکستان کر رہا ہے ۔

ہندوستان کے چاروں حربے ناکام رہے ہیںاور آج بھی مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں اور وادیوں ، دریاوں ، مرغزاروں اور کھیتوں ، شہر وں، قصبوں اور دیہاتوں سے ایک ہی آواز بلند ہو رہی ہے ۔ آزادی ۔ اور ایک ہی نعرے کی باز گشت سنائی دے رہی ۔ جائو ہندوستان ، واپس جائو۔ چند مفروضات جو صریحاً غلط ہیں کی وضاحت کرنا ضروری ہے ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے چھٹے باب کے تحت پاس ہونے والی کشمیر پر قرار دادیں ہر گز کمزور نہیں ہیں۔

وہ مکمل طور پر نافذ العمل ہیں۔ اقوام متحدہ اور فریقین کی ان پر عملدرآمد مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ اگر چھٹے باب کے تحت کوششوں کے نتیجے میں فریقین میں کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکے تو آرٹیکل 33،36،37 اور ایک عمومی آرٹیکل 25 کے تحت مزید کوششوں اور ساتویں باب کے دروازے کھلے ہیں۔ ایک مرتبہ سیکرٹری جنرل بطرس بطرس غالی نے اقوام متحدہ کے محکمہ قانون سے رائے پوچھی کہ چھٹے باب کے تحت قرار دادیں نافذ العمل ہیں ۔

جواب تھا، قطعاً، یقینا قابل نفاذ۔ اصل المیہ یہ ہے ہندوستان نے پہلے ان قرار دادوں سے مکمل اتفاق کیا اور پھر رو گردانی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا یہ الزام غلط ہے کہ پاکستان کی وجہ سے ان قرار دادوں کو عملی جا مہ نہیں پہنایا جا سکا ۔ قرار داد اٹھانوے (98) میں کہا تھا کہ پاکستان آزاد کشمیر میں 3000 سے 6000 ، ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں 12000 سے 18000 فو جی رکھ سکتا ہے ۔

اس سے اوپر فوج نے دونوں خطوں کو خالی کرنا تھا ۔ ہندوستان نے اس پر اتفاق کیا اور مطالبہ کیا کہ پہلے پاکستان فوجیں نکالے ، پھر ہندوستان ۔ پاکستان نے کہا ، بیک وقت ، کیونکہ ہندوستان کی نیت درست نہ تھی ۔ ہندوستان اپنے وعدے سے مکر گیا۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور خود ارادیت کی تحریک ہے اسے کسی صورت دہشت گردی قرار نہیںدیا جاسکتا ۔

مقبوضہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور نہ وہاں کے معاملات ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ۔ یہ ایک حل طلب بین الاقوامی تنازعہ ہے ۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ نہیں ہے اس کی علاقائی اور بین الاقوامی جہت سے مسلمہ ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے فریقین دو نہیں ، تین ہیں، اور تیسرا فریق اہل جموں و کشمیر ہیں ۔ جیسا کہ وزیراعظم نواز شریف نے 05 جنوری کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر کہا :۔

کشمیر ی اس مسئلے کے لازم اور مرکزی فریق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ۸ جولائی ۶۱۰۲ سے اب تک ہندوستانی قابض فوج نے مقبوضہ کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی ہے ۔سینکڑوں شہید کر دیئے گے ۔سینکڑوں کو اندھا کر دیا گیا ہے ۔ ہزاروں زخمی ہیں۔ املاک تباہ ، عزت نفس مجروح ، عورتوں کی حرمت غیر محفوظ ، جبری گمشدگیاں عام ، ہزاروں لا پتہ ، آدھی بیوائیں بے حال ، کئی گمنام اجتماعی قبریں ۔

یہ ہے کشمیر کی دلخراش تصویر ۔ کشمیر فی لواقع ایک قتل گاہ ہے اور حقوق انسانی کا قبرستا ن ہے ۔ جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ صرف او ر صرف نسل کشی ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں بند کرے ، مقبوضہ کشمیر سے 7 لاکھ فوجیوں کا انخلاء کرے ۔، مہلک پیلٹ گن کا استعمال ختم کرے ۔

اور ہندوستان بصارت سے محروم زخمیوں کے بیرون ملک علاج کی اجازت دے ،سیاسی اجتماعات پر پابندی اٹھائے ۔ سیاسی قیدیوں کو رہا کرے ۔بالخصوص یاسین ملک صاحب اور مسرت عالم کو اور دوسری حریت رہنمائوں کی نظر بندی اور ان پر تشدد ختم کرے ۔ ہندوستان نام نہاد مغربی پاکستان ریفیوجیز کو اسٹیٹ سبجیکٹ دینے، کشمیریوں کی مسروقہ املاک کو غیر کشمیریوں کو بیچنے اور مقبوضہ کشمیر میں سابق فوجیوں اور پنڈتوں کے لیے غیر قانونی بستیاں قائم کرنے کے کشمیر دشمن اقدامات سے باز آ جائے ۔

انہوں نے سوال کیا کہ ہندوستان یہ سب تو نہیں کرے گا،لیکن ہم بھی اس وقت تک جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک مقبوضہ کشمیر کو آزادی نہیں ملتی ۔ اس سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم بین الاقوامی سطح پر ہندوستان پر اخلاقی ، قانونی ، سفارتی اور سیاسی دبائو بڑھائیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہندوستان اور پاکستان میں اپنے فوجی مبصر گروپ کی رپورٹوں کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بحث کرے ۔

یو این کمیشن برائے حقوق انسانی مقبوضہ کشمیر میں ایک بین الاقوامی مشن بھیجے تاکہ وہاں حقوق انسانی کے حوالے سے صورتحال سے متعلق حقائق اور سنگین خلاف ورزیوں کا تعین کیا جا سکے ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیوگٹے رس ، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی سفارتی اعانت کا کردار ادا کریں۔آئی سی آر سی (ICRC) اور آئی ایف آر سی(IFRC) ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم کا نوٹس لیں اور اسے جوابدہ ٹھہرائیں ۔

اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی راہداری (Humanities corridor) قائم کرے۔سردار مسعود خان نے کہا کہ ہم پر فرائض عائد ہوتے ہیںکہ: ہم پاکستان ، آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر میں اپنی قوتیں مجتمع کریں اور اپنی آوازوں میں یکسوئی پیدا کریں ۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں بالخصوص مغربی حکومتوں اور پارلیمانوں سے اپنے رابطے تیز تر کریں ۔ تارکین وطن ہمار ا بہت بڑا اثاثہ ہیں ۔

سٹرٹیجک سطح پر کام کرنے کے لیے ہم ان سے رابطے کریں۔ ذرائع ابلاغ پر توجہ دیںکیونکہ اس شعبے میں ہندوستان نے ہمیں پچھاڑا ہے ۔ اُس کا جھوٹ بازار میں بک رہا ہے ۔ اور ہمار ا سچ کوئی سننے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ لیکن اب پاکستانی اور کشمیری بھی ابلاغ کے میدان میں مسابقت کے اہل ہیںاور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں کہ وہ ابلاغ میں مہارت کا لوہا منوائیں گے ۔

الحمدللہ پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ دفاعی اعتبار سے نا قابل تسخیر ہے ۔ جتنا پاکستان مضبوط ہو گا اتنا کشمیر کے مسئلے کے حل کے امکانات روشن ہوں گے ۔صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ آج کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان لاکھ دامن بچائے ہمیں گفتگو ، سفارت اور مذاکرات کی جستجو میں رہنا چاہیے ۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر جنگ و جدل سے حل نہیں ہو گا ۔

دو جوہری طاقتیں اور طاقتور راویتی صلاحیت کے ساتھ جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں تو پھر ایک ہی راستہ ہے ۔ بات چیت ، لیکن عزت ، وقار کے ساتھ، برابری کی بنیاد پر اہل پاکستان و کشمیر اس اعلیٰ اخلاقی مقام پر قائم رہیں گے ۔ کانفرنس کے چیئرمین سینٹ کمیٹی برائے خارجہ امور اور کشمیر سنیٹر مشاہد حسین سید ، چیئرمین پنجاب پبلک سروس کمیشن لفٹننٹ جنر ل (ر)سجاد اکرم ، مشعال ملک ، بیرسٹر سلطان محمود ، جنرل (ر)فیض علی چشتی ، سرمد ملک ، سکندر لودھی نے بھی خطاب کیا ۔ اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے درپیش چیلنجوں اور پیشر فت کے امکانات پر روشنی ڈالی ۔