فوجی عدالتوں کے حوالہ سے اپوزیشن اور حکومت کے مابین مشاورت جاری ہے ، وزارت داخلہ نے کوئٹہ کمیشن کے حوالہ سے اپنا جواب اور موقف تیار کر لیا ہے، 17 یا 18 جنوری کو عدالت عظمیٰ میں اپنا جواب دیں گے ، خبر لیکس کمیٹی سے میرا تعلق نہیں، خود مختار کمیٹی آئندہ چند روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی، پیپلز پارٹی کے بہتانوں کی کوئی وقعت نہیں اور نہ ہی جواب دینا مناسب ہے، دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں کے حوالہ سے علیحدہ قوانین بنانے ہوں گے ، ساڑھے تین برس میں ساڑھے چار لاکھ کے قریب شناختی کارڈ بلاک اور 32400 پاسپورٹ منسوخ کئے، میڈیا کی جائز تنقید کا خندہ پیشانی سے جواب دیں گے لیکن میڈیا مخالفین کی زبان نہ بولے، اسلام آباد سے پروفیسر حیدر کے علاوہ کسی اور کے لاپتہ ہونے کی اطلاع نہیں، کوشش ہے کہ لاپتہ افراد جلد سے جلد بازیاب ہو

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی کلر سیداں میں میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 14 جنوری 2017 16:48

فوجی عدالتوں کے حوالہ سے اپوزیشن اور حکومت کے مابین مشاورت جاری ہے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جنوری2017ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے حوالہ سے اپوزیشن اور حکومت کے مابین مشاورت جاری ہے جس کا مقصد دہشت گر دوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے فاسٹ ٹرائل کا نظام متعارف کرانا ہے، وزارت داخلہ نے کوئٹہ کمیشن کے حوالہ سے اپنا جواب اور موقف تیار کر لیا ہے، وزارت داخلہ سپریم کورٹ میں 17 یا 18 جنوری کو اپنا جواب دے گی، خبر لیکس کی کمیٹی سے میرا تعلق نہیں، کمیٹی حکومت پاکستان بناتی ہے جس کا نوٹیفیکیشن وزارت داخلہ کرتی ہے تاہم خود مختار کمیٹی آئندہ چند روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی، پیپلز پارٹی کے بہتانوں کی کوئی وقعت نہیں اور نہ ہی جواب دینا مناسب ہے، ان کے پاس سینٹ میں میری تقریر کا کوئی جواب نہیں تھا اسی لئے انہوں نے بھاگنے میں عافیت جانی، دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں کے حوالہ سے علیحدہ قوانین بنانے ہوں گے، فقہی اختلافات اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں، ہم نے ساڑھے تین برس میں ساڑھے چار لاکھ کے قریب شناختی کارڈ بلاک اور 32400 پاسپورٹ منسوخ کئے، میڈیا کی جائز تنقید کا خندہ پیشانی سے جواب دیں گے لیکن میڈیا مخالفین کی زبان نہ بولے، اسلام آباد سے پروفیسر حیدر کے علاوہ کسی اور کے لاپتہ ہونے کی اطلاع نہیں، ہماری کوشش ہے کہ ہر کوئی جلد سے جلد بازیاب ہو، حکومت کی اس حوالہ سے پالیسی واضح ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو یہاں کلر سیداں میں نومنتخب بلدیاتی نمائندوں سے ملاقات کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو مجھ سے کیا تکلیف ہے اس سے میڈیا اور تمام لوگ باخبر ہیں، میڈیا کی جائز تنقید اپنی جگہ لیکن بے جا تنقید ناانصافی اور پیشہ وارانہ بددیانتی ہے، سینٹ میں اپنی تقریر کے دوران جو جواب دیا پیپلز پارٹی کے پاس کوئی جواب ہوتا تو وہ سینٹ میں دیتی لیکن وہاں سے بھاگنے میں انہوں نے عافیت سمجھی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے تقریر میں کسی عسکریت پسند یا کالعدم تنظیم یا فرد کو رعایت نہیں دی ، کچھ لوگوں نے اپنے مطلب نکال لئے، میں نے کہا کہ فقہی اختلاف کی بنیاد پر کالعدم ہونے والی اور دہشت گرد قرار دینے والی تنظیموں میں فرق ہے، دہشت گردوں کیلئے کسی قسم کی رعایت کی گنجائش نہیں ۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ ہر چیز کو مولانا لدھیانوی سے جوڑنا مناسب نہیں اورنہ ہی علامہ ساجد نقوی یا حامد موسوی جیسی شخصیات کو خوانخواستہ کسی دہشتگرد تنظیم سے جوڑا جا سکتا ہے تاہم انکی تنظیمیں کالعدم قرار دی گئی ہیں ، اس لئے دہشتگردی اور فقہی اختلافات کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں میں فرق ہونا چاہئیے اور ان کیلئے علیحدہ قوانین بنانے ہونگے، اس میں کونسی غلط بات ہے ۔

وزیرداخلہ نے کہاکہ تصاویر ریکارڈ پر ہیں کہ کون کو ن سا سیاسی جماعت سربراہ کس کس کالعدم تنظیم کے سربراہ سے نہیں ملا۔ انہوں نے کہاکہ ملٹری کورٹس کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا ہے ، حکومت کی سطح پر بھی اور اپوزیشن بھی سوچ بچار کر رہی ہے اور ان سے بھی تجاویز مانگی گئی ہیں ۔ دہشتگردی کے حوالے سے کوئی ایسا فاسٹ ٹرائل کورٹس سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ دہشتگردوں کو منتطقی انجام تک پہنچایا جاسکے ، آئندہ چند دنوں میں صورت حال واضح ہوجائیگی ۔

وزیرداخلہ نے کہاکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت کی پالیسی بالکل واضح ہے، پروفیسر حیدر کے علاوہ اسلام آباد سے کسی کے لاپتہ ہونے کی اطلاع نہیں تاہم لاہور سے اطلاعات ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بازیابی کیلئے کام کر رہے ہیں، امید ہے کہ لاپتہ افراد بہت جلد بازیاب ہونگے، لواحقین کو اس حوالے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ حساس اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے اس لے صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں جو بھی لاپتہ ہیں ہماری کوشش ہوگی کہ تمام لوگ جلد بازیاب ہوں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ضمن میں کوششیں کر رہی ہیں ۔

وزیرداخلہ نے کہاکہ وہ ذاتی طور پر روزانہ کی بنیاد پر نگرانی کررہے ہیں ، ساڑھے 3سال میں نے سر نیچے کر کے داخلی سلامتی کے ایشوز پر کام کیا اور اسکا کریڈٹ نہیں لیا ہے لیکن بعض سیاسی عناصر پر ایک چیز کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہے ۔ ہمارے وکیل نے مشورہ دیا ہے کہ یہ اچھا موقع ہے کہ وزارت داخلہ کی داخلی سیکیورٹی ، دہشتگردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے جو طریقہ کار ہم نے سیکیورٹی فورسز اور افواج پاکستان کے ساتھ مل کر بنایا اس حوالے سے ریکارڈ تیار کر کے سپریم کورٹ میں پیش کر دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ طیبہ تشدد کیس میں ڈی آئی جی کو ہٹانے سے متعلق سمری کو نامنظور کر دیا ہے ، انہیں اس طرح ہٹانا آئی جی کے اختیار میں نہیں آتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جعلی شناختی کارڈز کا سلسلہ سالہاسال سے جاری تھا، ہم نے پہلی مرتبہ اقدامات کئے ، وزارت داخلہ اور وزیرداخلہ نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے اداروں کو فعال بنایا اور ساڑھے تین سال میں ساڑھے چار لاکھ شناختی کارڈ بلاک کئے جو سب غیر قانونی ہیں ، جو قانونی ہوں گے انہیں ان بلاک کریں گے، 32400 ایسے پاسپورٹس منسوخ کئے جو غیر ملکیوں کو دیئے گئے، اس مرض کی جڑیں بہت گہری ہیں یہ کام اتنا آسان نہیں لیکن اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔