طیبہ تشدد کیس، سپریم کورٹ نے متاثرہ بچی کو پاکستان سویٹ ہوم بھیجوا دیا، پو لیس کو 10 روز میں تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت

بدھ 11 جنوری 2017 22:56

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 جنوری2017ء) سپریم کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کی اہلیہ کی جانب سے اپنی کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کے حوالے سے از خود نو ٹس کیس میںپو لیس کو 10 روز میں ایماندارانہ اور غیرجانبدارانہ طریقے سے تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی آئی جی پو لیس خود واقعہ کی تفتیش کی نگرانی کر تے ہوئے مقررہ مدت میں تحقیقاتی رپورٹ عدالت کوپیش کریں، عدالت نے متاثرہ بچی طیبہ کو پاکستان سویٹ ہوم بھیجوا تے ہوئے واضح کیا ہے کہ بچی کے والدین کا تعین ہونے تک طیبہ سویٹ ہوم میں رہے گی ، جہاں پولیس کو ہر طرح کی رسائی حاصل ہو گی، عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ طیبہ کے والدین کی صلح کروانے والے وکیل راجہ ظہور الحسن، بچی کو ایڈیشنل سیشن جج کے گھر بھجوانے والی نادرا نامی خاتون اور بچی کے والدین کو اسلام آباد آنے کے لئے اپنی گاڑی فراہم کرنے والے رائے عثمان کھرل کو بھی شامل تفتیش کیاجائے۔

(جاری ہے)

بدھ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثاراور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر ڈی آئی جی اسلام آباد کاشف عالم، ایس پی ساجد کیانی، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبد الروف، اسسٹنٹ کمشنر پوٹھوہار نِشا اشتیاق بچی کے والدین ہونے کے دعویدار بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے واقعہ کے حوالے سے عدالت کو ا پنی رپورٹ پیش کرنے کے ساتھ متاثرہ بچی اور اس کے حقیقی والد اعظم اورماں نصرت کو عدالت میں پیش کیا۔

چیف جسٹس نے آئی جی سے پوچھا کہ عدالت کوبتایا جائے کہ واقعہ کے حوالے سے کیا تحقیقات کی گئی ہیں۔ آئی جی نے بتایا کہ بچی پرتشددکی میڈیکل رپورٹ آ گئی ہے۔ وہ موبائل بھی ہماری تحویل میں ہے جس سے پہلی تصویر لی گئی ہے اور موبائل ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے کہ اس عمل کے دوران کس کس کاآپس میں رابطہ ہوا تھا۔ ہم جلد کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں گے۔

بچی کا ابھی بیان نہیں لیاجاسکا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایف آئی آر طیبہ کے نام سے درج کی گئی ہے اور مجسٹریٹ کے سامنے بیان پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ بچی کے والد ہونے کے دعویدار اعظم اور ان کی اہلیہ نصرت نے عدالت کو بتایا کہ جب انہو ں نے طیبہ کو نا درا کے حوالے کیا اس وقت وہ لاھور میں تھے جس کے بعد نادرا نے صرف 2 بار بچی سے بات کرائی ،ہمیں ٹی وی پر خبر آنے سے پتہ چلا کہ بچی پر تشدد ہوا ہے، ہم جڑانوالہ سے عثمان خان کھرل کی گاڑی پر اسلام آباد آئے، اوریہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کرتے تھے وہ بڑے زمیندار ہیں یہاں ہم برما چوک میں واقع ایک رہائش گاہ پر وکیل سے ملے۔

جہاں ہم سے کہا گیا کہ انگوٹھے لگا کر بچی کو لے جائیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا اس وقت بچی کی کیا حالت تھی۔ والد نے بتایا بچی سہمی ہوئی تھی۔ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کسی کو معافی دی ہے تو اس کا کہنا تھا کہ مجھے پتہ نہیں۔ ہم سے انگوٹھے لگوائے گئے تھے میں پڑھا لکھا آدمی نہیں ہوں۔ ڈی آئی جی پولیس نے بتایا کہ اب تک چار گواہان کے بیانات لیے گئے ہیں۔

عدالت کے حکم پر سپرنٹنڈنٹ سیشن کورٹ نے ملزمہ ماہین ظفر کی ضمانت قبل از گرفتاری کا مکمل ریکارڈ جمع کروایا۔عدالت نے اس ریکارڈ کو سیل کرنے کا حکم دیا اور اس کی کاپی حقوق انسانی کمیشن پاکستان کے وکیل کو دینے کی ہدایت کی۔عدالت نے ڈی آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ وہ خود اس معاملے کی تحقیقات کریں اور اس ضمن میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ تمام تحقیاقت شفاف انداز میں کی جائیں اور بچی کا ڈی این اے ٹیسٹ کا عمل مکمل کروایا جائے۔ عدالت نے اس ضمن میں سوشل میڈیا پر آنے والی معلومات سے مدد لینے کی بھی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس معاملے میں سچ تک پہنچنا ہے۔ تمام اقدامات 10 روز میں مکمل کئے جائیں۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :