پاناما کیس،تقریرکی بنیاد پروزیراعظم کو نااہل کرنے کی مثال قائم نہیں کرینگے ،سپریم کورٹ

قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویزات پر فیصلہ درست ہوگا شواہد ریکارڈ کیے بغیر تنازع کیسے حل ہوسکتا ہے،دستاویزات کا جائزہ لینے سے ہی علم ہوگا اثاثے چھپائے گئے یا نہیں،وزیراعظم کا پانامہ کے ساتھ تعلق دیکھنا الگ بات ہے،وزیراعظم کی تقریر کا جائزہ لینا مختلف بات ہوگی،تقریر اور پانامہ کے درمیان تعلق کیسے ثابت کریں گی ،وزیراعظم کی تقریر پر فوجداری مقدمہ کیسے بن سکتا ہے، کیا صرف تقریر کی بنیاد پر ہی کسی کو نااہل قرار دے سکتے ہیں،اگر ہم یہ قانون وضع کریں تو انتہائی خطرناک ہوگا، پاناما کیس لندن فلیٹس تک محدود ہے، سپریم کورٹ کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگا، ہمیں اپنے دائرہ کار سے باہر نہ نکالیں ، نیب کو تحقیقات کا کہہ سکتے ہیں لیکن ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہیں گے، سپریم کورٹ نیب اور ٹرائل کورٹ کا کام نہیں کر سکتی ، شریف خاندان کا سارا کاروبار میاں شریف کے ہاتھ میں تھا،کاروبار کی منی ٹریل ان کے بچوں سے کیسے مانگی جاسکتی ہے،جسٹس اعجاز افضل خان منی لانڈرنگ کی تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا، آرٹیکل باسٹھ ،تریسٹھ سے متعلق آبزرویشن نہیں دینا چاہئے تھی، اپنے الفاظ پر ندامت ہے، ان الفاظ کو واپس لیتے ہیں ، دبئی جدہ اور قطری سرمایہ خاندانی لگتا ہے،خاندانی سرمایہ سے وزیراعظم کو کیسے لنک کریں گے، قطری خط بھی بظاہر سنی سنائی بات ہے،دوسرے فریق کو اس حوالے سے سن کر کسی نتیجے پر پہنچے گے،قطری خط کی قانونی حیثیت پر سوال کرسکتے ہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ آپ نے کیس میں مشکلات ہی پیدا کی ، بعض باتوں نے دکھی کیا، جسٹس شیخ عظمت سعید اور نعیم بخاری میں دلچسپ مکالمہ آپ چاہیں تو آپ کیلئے آسانی پیدا کروں،، تکلیف کیلئے معذرت خواہ ہوں، جسٹس شیخ عظمت سعید کاجواب کیا شفاف ٹرائل کے بغیر عدالت فیصلہ دے سکتی ہی ، دنیا میں کسی عدالت نے پانامہ پیپرز پر کسی کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ، ایسی کوئی عدالتی مثال موجود ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید عدالت جب کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب دیا جائے،جسٹس گلزاراحمد کی پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کو تنبیہہ جماعت اسلامی کی وزیراعظم کو عدالت طلب کرنے کیلئے درخواست دائر،سماعت (آج ) تک کیلئے ملتوی

منگل 10 جنوری 2017 14:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 10 جنوری2017ء) پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دئیے کہ تقریر کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل کرنے کی مثال قائم نہیں کریں گے،تقریر پر کسی نا اہل کریں گے تو یہ خطرناک ہوگا، قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویزات پر فیصلہ درست ہوگا شواہد ریکارڈ کیے بغیر تنازع کیسے حل ہوسکتا ہے،دستاویزات کا جائزہ لینے سے ہی علم ہوگا اثاثے چھپائے گئے یا نہیں،وزیراعظم کا پانامہ کے ساتھ تعلق دیکھنا الگ بات ہے،وزیراعظم کی تقریر کا جائزہ لینا مختلف بات ہوگی،تقریر اور پانامہ کے درمیان تعلق کیسے ثابت کریں گی ،وزیراعظم کی تقریر پر فوجداری مقدمہ کیسے بن سکتا ہے، کیا صرف تقریر کی بنیاد پر ہی کسی کو نااہل قرار دے سکتے ہیں،اگر ہم یہ قانون وضع کریں تو انتہائی خطرناک ہوگاجبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ انہیں گزشتہ روز آرٹیکل باسٹھ ،تریسٹھ سے متعلق آبزرویشن نہیں دینا چاہئے تھی، انہیں اپنے الفاظ پر ندامت ہے اور وہ ان الفاظ کو واپس لیتے ہیں۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کے بارے میں رپورٹ تیار ہوئی تھی، جسے ستمبر 1998 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ، چیف جسٹس آف پاکستان اور نیب کو بھیجا گیا تھا ، اس رپورٹ کو ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رحمان ملک نے تحریر کیا تھا۔

اس دوران جسٹس گلزاراحمد نے نعیم بخاری کو تنبیہہ کی کہ عدالت جب کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب دیا جائے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے استفسار کیا کہ پاناما کیس لندن فلیٹس تک محدود ہے، اسحاق ڈار کے بیان کی کیا اہمیت ہے کیا وہ شریک ملزم ہی ،ہم نے مقدمے کو3/184کے تحت دیکھنا ہے، ہمیں مطمئن کریں کہ نیب کو حدیبیہ کیس میں اپیل کرنا چاہیے تھی، اگر آپ دوسری جانب دلائل دیں گے تو معاملہ کہیں اور نکل جائے گا،کچھ مقدمات میں اتنا آگے گئے کہ بند گلی میں پہنچ گئے،چینی کی قیمت سے متعلق کیس میں فیصلہ کیا پھر اس کا کیا ہوا، سپریم کورٹ کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگا، ہمیں اپنے دائرہ کار سے باہر نہ نکالیں، ہائی کورٹ مقدمہ ختم کر دے تو اس کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے۔

محض پولیس ڈائری کی بنیاد پر حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، تفتیشی ادارے جو اقدامات کریں انہیں قانونی طور پر پرکھنا ہوتا ہے، نیب کو تحقیقات کا کہہ سکتے ہیں لیکن ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہیں گے، سپریم کورٹ نیب اور ٹرائل کورٹ کا کام نہیں کر سکتی، آپ نیب کے پاس جائیں اور درخواست دیں، ہم ٹرائل کورٹ نہیںنعیم بخاری نے کہا کہ اسحاق ڈار نے بیان میں منی لانڈرنگ میں کردار کا اعتراف کیا، ماضی میں تو عدالت عظمی اخباری تراشوں پر بھی فیصلے کرتی رہی۔

جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بخاری صاحب عدالت کو مطمئن کریں قوم سے خطاب نہ کریں، آپ کہتے ہیں کہ رائے کی بنیاد پر بغیر ثبوت فیصلہ کریں، یہ رپورٹ ایف آئی اے خود مسترد کر چکی ہے اس پر فیصلہ کیسے دیں، رحمان ملک کا نام شاید پاناما لیکس میں ہے۔ کیا عدالت فیصلہ کرنے کا اختیار رحمان ملک کو دے دے۔ اپنے دوست رحمان ملک کو جرح کے لئے کب لا رہے ہیں۔

نعیم بخاری نے کہا کہ ایف آئی اے کا مقدمہ اپنی طبعی موت مر گیا، وہ اپنے جواب الجواب میں رحمان ملک کو جرح کے لئے بلائیں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کریمنل کورٹ نہیں ہے، پولیس افسر کی رائے کی بغیر ثبوت کوئی قانونی اہمیت نہیں، راستہ صرف یہی ہے کہ چیئرمین نیب فیصلہ کے خلاف اپیل کریں، اپیل جانچنے کے بعد فیصلہ کریں گے دوبارہ تفتیش کا حکم دے سکتے ہیں یا نہیں۔

آپ کی تحقیق بہت اچھی ہے لیکن اس کا کیا فائدہ۔ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ پہلے تفتیش اور پھر ٹرائل کورٹ بن کر فیصلہ دے حالانکہ عدالت کے سامنے معاملہ آئینی طور پر نااہل قرار دینے کا ہے۔فاضل ججز کے ریمارکس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میں تو اسٹپنی وکیل ہوں اصل وکیل تو حامد خان تھے، حامد خان کے کیس سے الگ ہونے پر بوجھ میرے کندھوں پر آگیا۔

وہ عدالت سے اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی استدعا کرتے ہیں جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب وکٹ پر آئے ہیں، آپ پچ سے باہر نکل کر نہ کھیلا کریں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آپ چاہتے ہیں ہم قانون سے بالاتر ہوکر تحقیقات کریں، کیا رحمان ملک نے بطور وزیر یہ معاملہ اٹھایا، کیا منی لانڈرنگ پر ہونے والی تحقیقات انجام کو پہنچیں۔

جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ وزیر داخلہ بننے کے بعد رحمان ملک کو یہ معاملہ اٹھانا چاہیے تھا، مخلوط حکومت بنی تو (ن) لیگ حکومت کا حصہ تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہیے۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دبئی جدہ اور قطری سرمایہ خاندانی لگتا ہے،خاندانی سرمایہ سے وزیراعظم کو کیسے لنک کریں گے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ نے ٹرسٹ ڈیڈ پر بھی معاونت کا کہا تھا،نعیم بخاری نے کہاکہ ٹرسٹ ڈیڈ اپنے دفاع میں مقدمہ کے بعد تیار کی گئی،ٹرسٹ ڈیڈ کا مقصد نوازشریف اور مریم کوجائیداد سے الگ کرنا ہے،قطری خط کو باہر نکالیں تو ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی اہمیت نہیں،قطری خط رحمان ملک دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں،ٹرسٹ دیڈ کو ہمیشہ ہی خفیہ رکھا گیا۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ شریف خاندان کا سارا کاروبار میاں شریف کے ہاتھ میں تھا،کاروبار کی منی ٹریل ان کے بچوں سے کیسے مانگی جاسکتی ہے،نعیم بخاری نے کہاکہ نوازشریف،حسین نواز اور مریم حدیبیہ ملز کے ڈائریکٹرز میں شامل تھے،نعیم بخاری نے کہاکہ طارق شفیع کی جگہ شہباز شریف نے فروخت کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ کیا شفاف ٹرائل کے بغیر عدالت فیصلہ دے سکتی ہی ،نعیم بخاری نے کہا پوری دنیا میں پانامہ لیکس دستاویزات کو ثبوت مانا گیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ قطری خط بھی بظاہر سنی سنائی بات ہے،دوسرے فریق کو اس حوالے سے سن کر کسی نتیجے پر پہنچے گے،قطری خط کی قانونی حیثیت پر سوال کرسکتے ہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ دنیا میں کسی عدالت نے پانامہ پیپرز پر کسی کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے نعیم بخاری سے سوال کیا کہ ایسی کوئی عدالتی مثال موجود ہے، ،نعیم بخاری نے جوا ب دیا کہ یہ فیصلہ دے کر آپ ابتد کریں گے۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویزات پر فیصلہ درست ہوگا شواہد ریکارڈ کیے بغیر تنازع کیسے حل ہوسکتا ہے،دستاویزات کا جائزہ لینے سے ہی علم ہوگا اثاثے چھپائے گئے یا نہیں،وزیراعظم کا پانامہ کے ساتھ تعلق دیکھنا الگ بات ہے،وزیراعظم کی تقریر کا جائزہ لینا مختلف بات ہوگی،تقریر اور پانامہ کے درمیان تعلق کیسے ثابت کریں گی ،وزیراعظم کی تقریر پر فوجداری مقدمہ کیسے بن سکتا ہے، کیا صرف تقریر کی بنیاد پر ہی کسی کو نااہل قرار دے سکتے ہیں،اگر ہم یہ قانون وضع کریں تو انتہائی خطرناک ہوگا،سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید اور نعیم بخاری میں دلچسپ مکالمہ ہوا،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ آپ چاہیں تو آپ کیلئے آسانی پیدا کروں نعیم بخاری نے کہا کہ آپ نے کیس میں اب تک مشکلات ہی پیدا کی ہیں آپ کی بعض باتوں نے مجھے بہت دکھی کیا ہے،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ تکلیف کیلئے معذرت کواہ ہوں،مقصد اصل حقائق تک جانا ہے،تکلیف دینا نہیں،یہ نہیں چاہتے کہ دلائل سنے اور جاکر فیصلہ کردیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 26سال پہلے کی رقم شریف خاندان کو دستیاب تھی،رقم کی منتقلی شریف خاندان کو ثابت کرنی ہے،نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت کو فیصلہ دینا ہوگاوزیراعظم صادق اور امین ہیں یا نہیں۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ آپ صرف تقریر کی بنیاد پر وزیراعظم کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں،نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم کی حدتک تو بات ایسے ہی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ صرف ایک نہیں تین تقاریر اور ایک عدالتی موقف بھی ہے،نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز کے زیرکفالت ہونے کا بھی ایشو ہے،نوازشریف کے حوالے سے اثاثے چھپانے کا بھی معاملہ ہے،صرف شریف خاندان کی دستاویزات کا جائزہ میں تو بھی کیس بنتا ہے،نعیم بخاری نے کہاکہ عدالت نے ہی فیصلہ کرنا ہے۔ پارلیمنٹ اور قوم سے سچ بولا گیا یا نہیں،جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ تقریر کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل کرنے کی مثال قائم نہیں کریں گے،تقریر پر کسی نا اہل کریں گے تو یہ خطرناک ہوگا۔

سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی سماعت (آج)بدھ کو تک ملتوی کردی۔دوسری جانب پاناما لیکس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف کو عدالت طلب کرنے کی درخواست دائرکردای گئی ۔ درخواست جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دائرکی۔ جماعت اسلامی نے درخواست میں موقف اختیارکیا کہ وزیراعظم نے مئی 2016 میں پارلیمنٹ میں تقریرکی اوراس تقریر کے متضاد قطری خط عدالت میں پیش کیا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے درخواست میں مزید موقف اختیارکیا گیا کہ پاناما کیس میں تمام انگلیاں وزیراعظم اوران کے خاندان کی طرف اٹھ رہی ہیں، عدالت میں نواز شریف موضوع بحث ہیں، ملک سے باہر رقوم منتقل کرنے کے بارے وزیر اعظم ہی صحیح بتا سکتے ہیں اس لیے سپریم کورٹ وزیراعظم کوعدالت طلب کرے