پانامہ کیس ، جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کاسوال ہی ختم ہو جاتا ہے،سپریم کورٹ

پیر 9 جنوری 2017 14:27

پانامہ کیس ، جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کاسوال ہی ختم ہو ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 09 جنوری2017ء) پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کاسوال ہی ختم ہو جاتا ہے، نواز شریف اور ان کے بچوں کے درمیان تحائف کے تبادلے کا ثبوت بھی مانگ سکتے ہیں۔سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی معاونت بہت اچھی رہی ، نعیم بخاری نے دلائل کے آغاز پر کہا کہ 15 نومبر کو قطری خط عدالت میں پیش کیا گیا لیکن وزیراعظم نے اپنے خطاب اور عدالتی جواب میں قطری خط اورسرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ جدہ اور دوبئی میں سرمایہ کاری کا پورا ریکارڈ موجود ہے لیکن جدہ فیکٹری کا ریکارڈ اب تک عدالت میں پیش نہیں کیا۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا لازمی تھا کہ وزیر اعظم اپنے دفاع کا ہر نکتہ پارلیمنٹ میں بیان کرتے۔ جب کاروبار میاں شریف کرتے تھے تو کیا بچوں کی ذمہ داری ہے کہ منی ٹریل دیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ جائیدادیں اگر قطری کی تھیں تو منی ٹریل شریف خاندان کیسے دے سکتا ہے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف نے پیسا باہر بھجوایا۔

جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میاں شریف کے پاس قطر کے لیے سرمایہ ہی نہیں تھا۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ شریف خاندان نے آف شور کمپنیز 1993 سے لنک کرنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، انہوں نے آف شور کمپنیاں 2006 سے تسلیم کی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کا سوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔

دبئی، قطر اور لندن کا تمام سرمایہ 2004 تک میاں شریف کا تھا۔نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز وزیراعظم کے زیر کفالت ہیں اور اسے ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔ مریم نے مانا ہے کہ ان کا کوئی ذاتی گھر نہیں، انہوں نے اپنے گوشواروں میں قابل ٹیکس آمدنی صفر ظاہر کی اور 35لاکھ کی بی ایم ڈبلیو گاڑی ایک سال میں 2کروڑ 80 لاکھ کی ہوگئی۔ جسٹس اعجازافضل خان نے ریمارکس دیئے کہ حدیبیہ ملز کے التوفیق کیس میں مریم اور حسین فریق نہیں تھے، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ 1997 میں مریم نواز اور حسین نواز حدیبیہ پیپرز ملز میں ڈائریکٹر تھے۔

مریم نواز نے اپنے والد سے 86 کروڑ روپے بطور تحفہ لئے، اس کے علاوہ مریم نواز نے اپنے بھائی سے بھی قرضہ لیا ہوا ہے، مریم نواز کے شوہر کا 2013 سے پہلے ٹیکس نمبر ہی نہیں تھا، جس کی آمدن صفر ہو وہ بیوی کی کفالت کیسے کر سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ میرا بیٹا حسین نواز بیرون ملک رہائش پزیر ہے اور اس نے 81 کروڑ روپے بطور تحفہ دیے، نواز شریف نے 81 کروڑ کے تحفے والی رقم پر ٹیکس ادا نہیں کیا، ایف بی آر نے سست روی دکھا کر وزیراعظم سے تفتیش نہیں کی، حسین نواز کا ذریعہ آمدن کیا ہے جو اس نے 81 کروڑ کی رقم بطور تحفے میں دیے۔

نامعلوم ذرائع آمدن جانے بغیر کیس کو آگے لے جانا مشکل ہوگا۔جسٹس شیخ عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ بخاری صاحب آپ کے مطابق مریم نواز نے یوٹیلٹی بلز بھی جمع نہیں کرائے، قرض کا بڑا حصہ نامعلوم ذرائع سے بھی لیا گیا، نامعلوم ذرائع کون سے ہیں وہ مخالف فریق کو بتانا ہوں گے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ تحفہ دینے والے کا نیشنل ٹیکس نمبر ہونا ضروری ہے اور نیشنل ٹیکس نمبرحسین نواز پیش کر چکے ہیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ حسین نواز جب بیرون منتقل ہوگئے تو ان کا این ٹی این نمبر غیر فعال ہوگیا۔

جسٹس گلزار احمدنے ریمارکس دیئے کہ والد اور بیٹے کے درمیان تحائف کے تبادلے میں کوئی قباحت نہیں، اگر ٹرانزیکشن بینکنگ چینل کے ذریعے ہو تو اعتراض نہیں بنتا، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ کیا پتہ یہاں سے رقم ہنڈی کے ذریعے جاتی ہو اور لیگل چینل سے واپس آتی ہو۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ادارے نے سارے معاملے کو کیوں نہیں دیکھا، تحائف کے تبادلے کا ثبوت بھی مانگ سکتے ہیں۔

نعیم بخاری نے عدالت کے روبرو اسحاق ڈار کا منی لانڈرنگ سے متعلق اعترافی بیان پڑھ کر سنایا۔ عدالتی استفسار پر نعیم بخاری نے کہا کہ یہ اعترافی بیان لاہور کے درجہ اول مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا لیکن بعد میں اسحاق ڈار نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ یہ بیان گن پوائنٹ پر لیا گیا تھا، اعترافی بیان کے بعد ایک ریفرنس دائر ہوا جس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، ہائی کورٹ کے ریفری جج نے وہ ریفرنس خارج کیا، ریفری جج نے 11 مارچ 2014 کو فیصلہ سنایا کہ مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں، جس پر جسٹس اعجازافضل خان نے استفسار کیا کہ نیب نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کیوں نہیں کی، آپ کو اعترافی بیان کی قانونی حیثیت بتانا ہوگی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نعیم بخاری ہمارے قانونی سوالات کا جواب نہیں دیتے ، نعیم بخاری صاحب قانونی سوالات کے ساتھ فلرٹ نہ کریں ، قانونی سوالات پوچھیں تو پی ٹی آئی وکیل پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں ، نعیم بخاری صاحب لگتا ہے آپ مچھلیاں پکڑ رہے ہیں ۔ نعیم بخاری نے دلائل مکمل کرنے کی بات کی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کو دلائل مکمل کرنے کی کیا ضرورت ہے،جب تک عدالت کو مطمئن نہیں کرتے آپ روسٹرم پر رہیں گے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کے اطمینان تک آپ کو روسٹرم پر روکیں گے، میڈیا کے اطمینان کیلئے نہیں روکیں گے۔

ہم نے آپ سے 16 سوالات کئے لیکن ایک کا جواب نہیں دیا، آپ میڈیا کو نہیں ججوں کو مطمئن کریں۔ نعیم بخاری نے کہاکہ نصیر بھٹہ،اٹارنی جنرل محمود خان نے حدیبیہ کیس میں شریف خاندان سے رعایت برتی۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کیس میں کسی کو چارج نہیں کیا گیا تو حدیبیہ پیپرز ملز دوبارہ کیسے کھلنا چاہیی ،نعیم بخاری نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے وقت نوازشریف وزیراعظم تھے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہائیکورٹ نے صرف ریفرنس خارج کیا تھا کسی کو بری نہیں کیا،ملزمان کو شامل تفتیش نہ کرنے پر تحقیقات کو مسترد کیا گیا تھا،جسٹس اعجاز الحسن نے کہاکہ ریفری جج نے دوبارہ تحقیقات نہ کرنے کی کوئی وجہ بتائی ،نعیم بخاری نے جوا ب دیا کہ ریفر ی جج نے لکھا کہ ازسر نو تحقیقات کی ضرورت نہیں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ نیب ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی تحقیقات جاری رہتی ہے،بعض اوقات 15سپلیمنٹری ریفرنس بھی دائر ہوتے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ نیب کو دوبارہ تحقیقات کیلئے کسی کی ہدایت کی ضرورت نہیں تھی،عدالت نیب کو دوبارہ تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ چیئرمین نیب کو اپیل دائر نہ کرنے کی وضاحت کرنا ہوگی۔جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ ان ریفرنسز میں لندن فلیٹس کا ذکر تھا ۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ اب تک حدیبیہ پیپرز ملز کے الزامات موجود ہیں،ہم نیب کو حکم دے دیتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ نیب ذمہ داریاں پوری نہ کرے تو آرٹیکل 187کے تحت احکامات دے سکتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ چیئرمین نیب سے پوچھ لیتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی کیوں نہ چیئرمین نیب کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرائیں،پھر چیئرمین نیب کہے گا کہ میں ریفرنس دائر کرتا ہوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اگر حدیبیہ ملز کیس دوبارہ بھیجیں تو آرٹیکل184کے تحت فیصلہ نہیں کرسکتے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ پانامہ کیس حدیبیہ کیس سے منسلک کرتے ہیں تو تصویر واضح نہیں ہوگی۔نعیم بخاری نے کہاکہ مختلف معاملات میں حسین اور مریم نواز کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ ہوئی،میں اس ٹرسٹ ڈیڈ پر سوال اٹھاتا ہوں،لندن میں مقامی سوسٹر نے بیان دیا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میرے سامنے ہوئی تھی، ایک فریق نے جدہ اور دوسرے نے لندن میں ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کیے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے سوال کیا کہ حسین نواز کی بنفیشل مالک ہونے کی دستاویز موجود ہی ۔نعیم بخاری نے کہاکہ ٹرسٹ ڈیڈ اور قطری خط کے علاوہ کچھ نہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نوٹری پبلک نے صرف کاپی کی حدتک تصدیق کی۔نعیم بخاری نے کہا7نومبر2011کو ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ دستخط کا معاملہ دونوں فریقین کے درمیان متنازع نہیں۔

نعیم بخاری نے کہاکہ میرا اختلاف دستخط سے نہیں اس کی تحریر سے ہے،ٹرسٹ ڈیڈ اصل نہیں بلکہ مقدمے میں سہولت کیلئے بعد میں تیار کی گئی،قطری خط عدالت مسترد کرے تو حسین نواز کی جائیداد سے ملکیت کا دعویٰ ختم ہوجائے گا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ فی الحال قطری خط کو مسترد نہیں کرسکتے،ہم نے بیل کو سینگوں سے پکڑنا ہے،نعیم بخاری نے کہاکہ قطری خط میں دیا گیا موقف وزیراعظم کے بیان سے مختلف ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری اور ٹرسٹ ڈیڈ کا حوالہ کسی انٹرویو میں نہیں دیا گیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ شریف خاندان کے کاغذات نامکمل ہیں،ان کے وکلاء کو بہت سے معاملات کا جواب دینا ہوگا،آف شور کمپنیوں کا بیریئر سرٹیفکیٹ جس کے پاس ہو وہی مالک ہوتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ 1999کے انٹرویو میں حسن نے کہا وہ طالب علم ہیں،کوئی آمدن نہیں،حسن نواز انہی فلیٹس میں رہائش پذیر تھے،1990کی دہائی کے آخر میںفلیٹس شریف خاندان کے زیر استعمال ہیں،مسئلہ فلیٹس کا نہیں ایمانداری کا ہے کیا پارلیمنٹ اور قوم کے ساتھ سچ بولا گیا ۔

جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ دیکھنا ہوگا کیا انٹرویو کی بنیاد پر عدالت ڈیکلریشن دے سکتی ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ صادق اور امین پر فیصلہ درخواست گزاروں پر بھی لاگو ہوگا۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ صرف دلائل پر انحصارنہیں کر رہے ،کیس پر عدالت کی اپنی بھی ریسرچ جاری ہے،کیس میں احتیاط سے کام لیں گے،پانامہ کیس کی سماعت کل منگل تک ملتوی کردی گئی