افغان تنازعہ ، پاکستان ، چین اور روس اتحاد ایک مثبت امن اقدام ہے ، چائنا مارننگ پوسٹ

مجوزہ اتحاد وسطی ایشیاء میں نمایاں طاقت کے طورپر امریکہ کی جگہ لے سکتا ہے مجوزہ اتحاد پیچیدہ مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنا چاہتا ہے تا ہم اہم سٹیک ہولڈرز نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے گذشتہ ماہ ماسکو میں متعارف کئے جانیوالے گروپ میں علاقائی طاقتوں ایران اور ترکی کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے ایران اور روس کے ساتھ طالبان کے بڑھتے مراسم افغانستان میں بغیر اعلانیہ جنگ کے بارے میں تشویش پیدا کررہے ہیں

اتوار 8 جنوری 2017 16:10

افغان تنازعہ ، پاکستان ، چین اور روس اتحاد ایک مثبت امن اقدام ہے ، چائنا ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 08 جنوری2017ء) روس کی قیادت میں منصوبہ جس میں چین اور پاکستان شامل ہیں جو افغانستان کی خانہ جنگی کا سیاسی تصفیہ چاہتا ہے کے ایسے سفارتی اتحاد بننے کا امکان ہے جو وسطی ایشیاء میں نمایاں قوت کے طورپر امریکہ کی جگہ لے سکتا ہے ۔یہ بات چینی جریدہ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے اتوار کو ایک رپورٹ میں بتائی ہے ۔

جریدہ نے اس اتحاد کو ایک ایسا مثبت اقدام قرار دیا ہے جو پیچیدہ مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنا چاہتا ہے تا ہم اس بارے اہم سٹیک ہولڈرز کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے ، اس گروپ بندی کا انکشاف گذشتہ ماہ کے اواخر میں ماسکو میں تیسرے اجلاس کے بعد کیا گیا اور ممکن ہے کہ اس کو توسیع دے کر اس میں علاقائی طاقتیں ایران اور ترکی کو بھی شامل کیا جائے جنہوں نے افغانستان کے بارے میں مذاکرات سے قبل مذاکرات میں روس کے ساتھ چین کے بارے میں الگ سہ فریقی گروپ قائم کیا ہے ، افغان حکومت نے ماسکو اجلاس کے بارے میں غصے کے رد عمل کا اظہار کیا ، اسے اس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا کیونکہ اجلاس نے پری ڈائیلاگ مذاکرات میں شامل طالبان کی اہم شخصیات کی نقل و حرکت کے بارے میں اقوام متحدہ کی پابندیوں میں نرمی کی تجویز پیش کی تھی ، اس سے اقوام متحدہ سے طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کو بلیک لسٹ قراردینے کیلئے نومبر میں کابل کے مطالبے کی تردید ہو گئی ، کابل نے یہ مطالبہ اس لئے کیا کیونکہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے امن مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ، اس کے برعکس ماسکو میں سہ فریقی مذاکرات میں کابل کے ساتھ مذاکرات کے لئے طالبان کی دو پیشگی شرائط میں سے ایک کی صدائے باز گشت سنائی دی جس کا اعادہ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے قبل ازیں دسمبر میں کیا تھا ، دوسری شرط افغانستان سے امریکی قیادت والی نیٹو افواج کی واپسی ہے ، روس اور ایران کے ساتھ طالبان کے بڑھتے ہوئے مراسم افغانستان میں بغیر اعلانیہ جنگ کے بارے میں پریشانی کو ہوا دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

کنگز کالج لندن میں بین الاقوامی تعلقات کے ایک پروفیسر ہارش وی پنڈ کا کہنا ہے کہ یہ افغانستان سے مغرب کے انخلاء کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کی ایک کوشش اور ایک ایسا موقع ہے جس کے بارے میں روس کو احساس ہے کہ یہ اس کے لئے وسطی ایشیاء میں کھل سکتا ہے ، مغربی ایشیاء کے بعد اس کے وسطی ایشیاء جہاں صدر ولادی میر پیوٹن محسوس کرتے ہیں کہ وہ روسی اتھارٹی کو دوبارہ مسلط کرتے ہیں اور چین دست تعاون فراہم کرنے میں خوش ہے تا ہم اگر ہم انڈو ۔

پیسفک سٹرٹیجک لینڈ سکیپ پر غور کریں تو وہاں چین لیڈر ہے اور چین کو روسی قیادت کی پیروی کرنی پڑے گی ۔جریدہ کے مطابق افغانستان کے بارے میں سہ فریقی مذاکرات نے امریکہ اور اس کے نو دریافت شدہ سلامتی پارٹنر بھارت جو حال ہی میں پاکستان کی طرف سے افغانستان کی سرزمین پر مقیم طالبان قیادت کو کابل سے مذاکرات کرنے پر دبائو ڈالنے کے بارے میں غیر رضا مندی کا اظہار کیا ، افغان حکومت کے انتہائی قریب آگیا ہے کہ اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک فورم قائم کیاہے ، بھارتی وزیر مملکت امور خارجہ ایم جے اکبر نے افغانستان کو شامل نہ کرنے پر سہ فریقی مذاکرات پر نقطہ چینی کی ہے اگرچہ بھارت کے دیرینہ دوست روس نے کہا ہے کہ کابل کو فورم کے آئندہ اجلاسوں میں شرکت کیلئے مدعو کیا جائیگا ۔

شی کے پرچم بردار ’’ ون بیلٹ و ن روڈ ‘‘ منصوبے کے تحت جو کہ ایسا منصوبہ ہے جو علاقائی معیشتوں کو چینی مرکزیت والے تجارتی نیٹ ورک کے ساتھ ملا دے گا ، چین نے پاکستان میں زبردست بنیادی ڈھانچہ سرمایہ کاری شروع کر رکھی ہے ، پاکستان نے اسے گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے پہلی مرتبہ تیل کی دولت سے مالا مال خلیج فارس اور مغربی بحیرہ ہند تک اوورلینڈ رسائی دی ہے ، طالبان دولت اسلامیہ (داعش ) کو روکنے کے لئے افغانستان میں سیز فائر کی پیشکش کر سکتے ہیں ، شام کی طرح روس دولت اسلامیہ (آئی ایس ) کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی موجودگی کے پیش نظر جس کے بارے میں ماسکو کا دعویٰ ہے کہ اسے مشرق وسطیٰ سے فرار ہونیوالے دولت اسلامیہ کے 700خاندانوں کی حالیہ آمد کی وجہ سے فروغ حاصل ہوا ہے کے تناظر میں افغانستان میں زیادہ سے زیادہ ملوث ہونے پر نظریں گاڑے ہوئے ہے ، ماسکو میں مذاکرات کے بعد جاری کئے جانیوالے اعلامیے میں دولت اسلامیہ کے افغان شعبہ سمیت افغانستان میں انتہا پسند گروپوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر بالخصوص تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

افغانستان کی وزارت داخلہ نے گذشتہ ہفتے کہا ہے کہ دولت اسلامیہ اس وقت ملک کے 34اضلاح میں سے کم از کم گیارہ میں سرگرم عمل ہے ۔