خواتین کے حقوق سے متعلق یو ایس ایڈ اورعورت فائونڈیشن کے تعاون سے ایس جے ڈی آئی کے زیر اہتمام سیمینار کا انعقاد

ہفتہ 7 جنوری 2017 19:28

خضدار (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 جنوری2017ء) خواتین کے حقوق سے متعلق یو ایس ایڈ اورعورت فائونڈیشن کے تعاون سے ایس جے ڈی آئی کے زیر اہتمام سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرین قانون ،دانشوروں اورسیاسی و سماجی شخصیات نے خواتین کے حقوق ونسلی مساوات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین معاشرے کااہم ستون اور ان کا کردار کلیدی ہے مقررین نے کہا کہ اسلام میں خواتین کواعلی منصب اورنمایاں مقام حاصل ہے جب کہ ملکی قوانین میں بھی خواتین کے حقوق متعین ہیں ایس جے ڈی آئی خواتین کومساویانہ حقوق دلوانے ،مظلوم خواتین کی عدالتوں تک رسائی کے لئے شعور اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے ان خیالات کا اظہار ریڈیو پاکستان خضدار کے اسٹیشن ڈائریکٹر سلطان احمد شاہوانی ،پراجیکٹ کوارڈنیٹر ایس جے ڈی آئی صلاح الدین مینگل ،ایڈووکیٹ گلزار کنڈرانی ،عظمت بلوچ ،بی این پی تحصیل خضدار کے سابق صدر سفر خان مینگل ،بشیر احمد مینگل ،ایڈووکیٹ آسیہ سلام رودینی اور ایڈووکیٹحمیرا زہری نے خطاب کیا مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام میں خواتین کو اعلی مقام حاصل ہے اور ان کے حقوق بھی متعین ہیں جب کہ قبائلی معاشرے میں بھی یہاں کی خواتین کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے مگر افسوس اب صورتحال مختلف ہوتی جا رہی ہے ہم سب کو چائیے کہ اپنے اقدار اور روایات کو دوبارہ اپنا کر خواتین کو وہ مقام دیں جو بحیثیت انسان ان کا حق ہے اس موقع پر پراجیکٹ ڈائیریکٹر صلاح الدین مینگل نے اپنے خطاب میں کہا کہ یو ایس ایڈ اور صنفی مساوات پروگرام کے مالی تعاون سے ایس جے ڈی آئی نے ایک پروگرام کے تحت ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کو مستحکم کرتے ہوئے خواتین کی قانونی معاونت کے لئے عدالت کے احاطے میں خصوصی ڈیسک کا قیام عمل میں لایا گیاہے اس کے لئے ہم نے ضلعی سطح پر خواتین کا ایک گروپ تشکیل دیا ہے جس میں ایس جے ڈی آئی اور ڈسٹرکٹ بار کے ارکان شامل ہیں اس گروپ کا مقصد خواتین کے قانونی مسائل کی نشاندہی کرنا اور مستحق خواتین کو مؤ ثر قانونی رہنمائی فراہم کرنا ہے اور یہ کام خواتین کے لئے بلا معاوضہ ہو گا اس موقع پر بی این پی (مینگل ) کے سابق تحصیل صدر سفر خان مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جھالاوان میں بلوچی روایات کی ضرورت بات کرتے ہیں مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے مقررین نے کہاکہ آج بھی ہماری خواتین مختلف سماجی رسم وروج کے بھینٹ چڑھ جاتی ہیں مرد کے کیئے ہوئے جرم کی سزا بھی خواتین کو بھگتنی پڑتی ہے ،خاندانی وراثت کا مسئلہ بھی بڑا پیچیدہ ہوتا ہے ایک گھر میں اولاد کے مابین میں فرق بھی ماں باپ کی گود سے شروع ہوتا ہے اس لیئے ضروری ہے کہ ماں باپ سے شروع ہونے والی تربیت ہی سے بیٹا اور بیٹی میں بنیادی فرق کا خاتمہ ہو اور یہ فرق تعلیم و تربیت سے لیکر زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں حقوق ملنے چاہیئے مقررین نے کہا کہ معاشرے کا نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے ہمیں اپنی خواتین کو قدر و نگاہ سے دیکھنا اور ان کے سماجی حقوق کا ہر حال میں خیال رکھنا ہوگا۔

متعلقہ عنوان :