مولانا الطاف حسین حالی نے نظم ونثر سے اسلامیانِ ہند کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا، عثمان احمد

ہفتہ 31 دسمبر 2016 22:16

لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 دسمبر2016ء) الطاف حسین حالی نے اپنی نظم ونثر سے اسلامیانِ ہند کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا،ان کی شاعری اردو ادب میں ایک تحریک اور رجحان کی حیثیت رکھتی ہے، نئی نسل الطاف حسین حالی کے افکارونظریات کا مطالعہ کرے۔ ان خیالات کااظہارعثمان احمد نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ،شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میںشمس العلماء مولاناالطاف حسین حالی کی 102 برسی کے موقع پرنئی نسل کو ان کی حیات و خدمات سے آگاہ کرنے کیلئے منعقدہ خصوصی لیکچر کے دوران کیا۔

عثمان احمد نے کہا کہ خواجہ الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزد بخش تھا ۔ ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ بڑے بھائی امداد حسین نے پرورش کی۔

(جاری ہے)

اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ 1856ء میں حصار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہوگئے لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے۔

چند سال بعد جہانگیر آباد کے رئیس مصطفٰی خان شیفتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ پھر دلی آکر مرزا غالب کے شاگرد ہوئے۔ غالب کی وفات پر حالی لاہور چلے آئے اور گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت اختیار کی۔ لاہور میں محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی یوں شعر و شاعری کی خدمت کی اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالی۔4 سال لاہور میں رہنے کے بعد دلی چلے گئے اور اینگلو عربک کالج میں معلم ہوگئے۔

وہاں سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران میں مسدس، مدوجزر اسلام لکھی۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد پانی پت میں سکونت اختیار کی۔ 1904ء میں شمس اللعماء کا خطاب ملا۔ سرسید جس تحریک کے علمبردار تھے حالی اسی کے نقیب تھے۔الطاف حسین حالی نے نہ صرف اردو ادب کو صحیح ادبی رنگ سے آشنا کیا بلکہ آنے والے ادیبوں کے لیے ادبی تنقید، سوانح نگاری، انشاپردازی اور وقتی مسائل پر بے تکان اظہار خیال کرنے کے بہترین نمونے یادگار چھوڑے۔ مولانا حالی کی نظم نگاری کا خاص مقصد تباہ حال مسلمان قوم میں بیداری کی لہر دوڑانا تھا۔ تاکہ مسلمان دوبارہ طاقت حاصل کر کے دنیا کے حکمران بن جائیں۔ آپ نے 31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں وفات پائی۔