وزیراعظم محمد نواز شریف کے پاکستان سے تشدد کے خاتمہ کے عزم سے 2 برسوں کے دوران دہشت گردی میں 75 فیصدکمی آئی ہے، چند سال پہلے تک پاکستان کا دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا، یہ احمقانہ بات لگتی تھی کہ پاکستان کی سیکورٹی کی مشکلات پر قابو پا لیا جائے گا لیکن غیر متوقع اور غیر معمولی طور پر ایسا وقوع پذیر ہوا جب پاکستان کو خطرناک ملک قرار دینے کی سوچ کو ناکام بنایا ہے، مغرب میں بھی اب یہ تاثر ختم ہو گیا ہے،طالبان بری طرح کمزور ہو چکے ہیں، فوج قبائلی علاقوں کے چپے چپے پر موجود ہے اور انتہاء پسندی کے سر اٹھانے کا کوئی امکان نہیں

برطانوی جریدے سپیکٹیٹر کی پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے غیر معمولی کامیابیوں پر رپورٹ

جمعرات 29 دسمبر 2016 22:06

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 دسمبر2016ء) وزیراعظم محمد نواز شریف کے 2013ء میں پاکستان سے تشدد کے خاتمہ کے عزم کے ساتھ گذشتہ 2 برسوں کے دوران دہشت گردی میں 75 فیصدکمی آئی ہے۔ برطانوی ہفت روزہ میگزین سپیکٹیٹر کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق تشدد کا ابھی مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے، گذشتہ 2 برسوں میں اس میں تین حصہ کمی آئی ہے، جارج ڈبلیو بش کی طرف سے 15 سال قبل دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نسبت آج ملک کا ہر حصہ محفوظ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چند سال پہلے تک پاکستان کا دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا، یہ احمقانہ بات لگتی تھی کہ پاکستان کی سیکورٹی کی مشکلات پر قابو پا لیا جائے گا لیکن غیر متوقع اور غیر معمولی طور پر ایسا کچھ یقینی طور پر وقوع پذیر ہوا جب سے اس نے پاکستان کو خطرناک ملک قرار دینے کی سوچ کو ناکام بنایا ہے، مغرب میں بھی یہ تاثر ختم ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے ستمبر 2013ء میں کراچی میں بلائے گئے کابینہ کے خصوصی اجلاس کی وجہ سے یہ تبدیلی ممکن ہوئی جس میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان سے تشدد کے کلچر کو اب ختم ہونا چاہئے۔ برطانوی جریدے نے سندھ رینجرر کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بلال اکبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2013ء میں کراچی میں قتل کے واقعات 2789 تھے، 2016ء کے ابتدائی 11 ماہ میں یہ تعداد 592 پر آئی، 2013ء میں 51 بم دھماکے ہوئے، رواں سال نومبر کے آخر تک یہ تعداد 2 رہی۔

تین سال قبل کراچی اغواء برائے تاوان کا گڑھ تھا، 2013ء میں 78 مقدمات تھے، اس سے پہلے یہ تعداد 110 تھی۔ رواں سال 19 مقدمات سامنے آئے، 2013ء میں 533 سے زائد بھتہ خوری کے مقدمات تھے، 2016ء میں صرف 133 رہے۔ فرقہ واریت کی وجہ سے قتل کے واقعات میں تیزی سے کمی آئی، 2013ء میں 38 شیعہ مسلک کے اراکین کو قتل کرنے کے واقعات تھے، 2016ء میں ان واقعات میں دو تہائی حد تک کمی آئی۔

میجر جنرل بلال نے سپیکٹیٹر کو بتایا کہ ہم نے ستمبر 2013ء سے اب تک سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے 919 ٹارگٹ کلرز کو رنگے ہاتھوں پکڑا۔ انہوں نے 7 ہزار 3 سو قتل کے واقعات کا اعتراف کیا۔ شہر میں اب قتل کے واقعات کی تعداد یومیہ 2 سے بھی کم ہے جو پہلے 10 یا 15 ہوتی تھی اور اس دوران لسانی تنازعات میں 100 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تین سال قبل نمبیو بین الاقوامی کرائم انڈیکس کے مطابق کراچی دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں چھٹے نمبر پر تھا اور آج یہ 31 ویں نمبر پر ہے اور مزید بہتری کی طرف جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف نے انتہائی اہم فیصلہ کیا اور 6 ماہ بعد ہی کراچی میں رینجرز بھجوائی۔ انہوں نے افغان بارڈر کے ساتھ طالبان کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں فوج بھیجی۔ جون 2014ء میں جنرل راحیل شریف نے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن ضرب عضب کی کمان سنبھالی۔ طالبان گروپوں کی طرف سے شدید مزاحمت بھی سامنے آئی اور پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے جیسا اندوہناک سانحہ بھی رونما ہوا جس میں 140 بچوں کو بیدردی سے شہید کیا گیا جس کے نتیجہ میں جنوری 2015ء میں نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا اور وزیراعظم محمد نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا۔

خصوصی فوجی عدالتیں دہشت گرد اور کالعدم گروپوں کیلئے قائم کی گئیں۔ اس دوران فوجی آپریشن کے دوران سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 35 سو طالبان ہلاک ہوئے۔ دہشت گردوں کے 992 ٹھکانے تباہ کئے گئے اور 36 سو مربع کلومیٹر کا علاقہ کلیئر کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس دوران تقریباً 5 سو فوجی جوان شہید ہوئے۔ سپیکٹیٹر نے نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کے ڈائریکٹر بختیار محمد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ طالبان بری طرح کمزور ہو چکے ہیں، فوج قبائلی علاقوں کے چپے چپے پر موجود ہے اور انتہاء پسندی کے سر اٹھانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ رپورٹ میں سندھ اسمبلی کی طرف سے پاکستان میں ہندوئوں کی مذہب کی جبری تبدیلی کے حوالہ سے بل کی منظوری کو بھی اہم پیشرفت قرار دیا۔