کینیڈا نے پاکستان مخالف کالعدم تنظیم کی خاتون رکن کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا

کریمہ مہراب پاکستانی حکومت کیخلاف منفی سرگرمیوں میں ملوث گروپ کا حصہہے ، اسے دہشتگردوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا، مہراب کی درخواست سیکیورٹی بنیادوں پر منظور نہیں کی گئی، کینیڈین بارڈر حکام

جمعرات 29 دسمبر 2016 15:13

اوٹاوا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 29 دسمبر2016ء) کینیڈا نے پاکستان مخالف کالعدم تنظیم کی خاتون رکن کریمہ مہراب کو ’’سیاسی پناہ‘‘ دینے سے انکار کر تے ہوئے کہا ہے کہ کریمہ مہراب پاکستانی حکومت کیخلاف منفی سرگرمیوں میں ملوث گروپ کا حصہ ہیں، اسے دہشتگردوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا، مہراب کی درخواست سیکیورٹی بنیادوں پر منظور نہیں کی گئی کینیڈا کے ایک اخبارنے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے نے جس خاتون کو 2016ء کی انتہائی موثر اور اثر و رسوخ والی خاتون کا خطاب دیا تھا اسے کینیڈا کی بارڈر سروس ایجنسی نے اس بناء پر سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیاہے کہ وہ پاکستانی حکومت کیخلاف منفی سرگرمیوں میں ملوث گروپ کا حصہ ہیں۔

اس کی سیاسی پناہ کی درخواست ریفوجی بورڈ ٹربیونل کی جانب سے آئندہ سال تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو پاکستان کی جانب کالعدم قرار دیا گیا ہے تاہم ابھی تک کینیڈین حکومت نے اسے دہشتگردوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا اس سلسلے میں کینیڈین بارڈر حکام کا کہنا ہے کہ مہراب کی درخواست سیکیورٹی بنیادوں پر منظور نہیں کی گئی کیونکہ اس وہ اس تنظیم کی رکن ہے جو جمہوری حکومت کیخلاف منفی اقدامات میں ملوث رہی ہے یا پھر آئندہ بھی سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کریمہ مہراب نے الزام عائد کیا تھا کہ اسے اس کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور مبینہ طور پر 2003ء سے وہاں فوجی آپریشن جاری ہیتاہم اٹاوا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے پریس منسٹر ندیم کیانی نے الزامات کو سختی سے مسترد اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے اور وہاں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہوا او راس حوالے سے کریمہ مہراب کے الزامات بے بنیاد ہیں۔

اور پاکستان میں میڈیا انتہائی آزاد اور متحرک ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ لوگ مظالم کے الزامات لگا کر انہی بنیادوں پرکینیڈا میں سیاسی پناہیں حاصل کرتے ہیں ، ان کے الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں ، ہم نے پاکستان میں اس حوالے سے کوئی الزامات نہیں سنے اور نہ ہی وہاں کوئی ایسی صورتحال ہے۔

متعلقہ عنوان :