اسرائیلی سکیورٹی کے لیے جتنا کچھ اوباما انتظامیہ نے کیا ماضی میں کسی امریکی حکومت نے نہیں کیا،ہماری بے حد کوششوں کے باوجود دو ریاستوں پر مبنی حل اب سنگین خطرے میں ہے، مستقبل کے امن معاہدے کو اسرائیل کی موجودہ پالیسوں نے خطرے میں ڈال دیا ہے ، اگر ہماری آنکھوں کے سامنے قابل عمل دو ریاستی حل کو نقصان پہنچایا جائے تو ہم ٹھیک طرح سے اسرائیل کا تحفظ اور دفاع نہیں کر سکتے

امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری کا وائٹ ہاؤس میں خطاب کے دوران اسرائیلی الزامات کا جواب

بدھ 28 دسمبر 2016 23:32

واشنگٹن ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 دسمبر2016ء) امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف منظور کی جانے والی حالیہ قرار داد پر ہونے والی رائے شماری میں امریکی عدم شرکت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام امریکی اقدار کے عین مطابق تھا۔بدھ کو وائٹ ہاؤس میں اپنے خطاب کے دوران انھوں نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف منظور کی جانے والی حالیہ قرارداد کے بعد اوباما انتظامیہ کے بارے میں اسرائیل کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیا۔

جان کیری نے اپنی تقریر کے دوران فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قیام امن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں ہماری بے حد کوششوں کے باوجود دو ریاستوں پر مبنی حل اب سنگین خطرے میں ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا ہے کہ مستقبل کے امن معاہدے کو اسرائیل کی موجودہ پالیسوں نے خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ نہ اسرائیل، فلسطین اور امریکہ کے مفادات کے لیے اچھا ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ اگر ہماری آنکھوں کے سامنے قابل عمل دو ریاستی حل کو نقصان پہنچایا جائے تو ہم ٹھیک طرح سے اسرائیل کا تحفظ اور دفاع نہیں کر سکتے ۔انھوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرارداد کے بارے میں کہا کہ' قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بستیوں کے قیام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور دو ریاستوں کے قیام کے حل، جامع اور پائیدار امن کے قیام کر راہ میں ایک بڑی رکاؤٹ ہیں۔

جان کیری نے کہا ہے کہ وہ یہاں یہ بھی بتانے آئے ہیں کہ اب بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے اگر فریقین ایسا کرنے پر آمادہ ہوں۔انھوں نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پائیدار امن دو ریاستوں پر مبنی حل سے قائم ہو سکتا ہے۔انھوں نے اسرائیل کی سکیورٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی کے لیے جتنا کچھ اوباما انتظامیہ نے کیا ماضی میں کسی بھی امریکی حکومت نے نہیں کیا۔

جان کیری نے کہا ہے کہ 'اسرائیلی وزیراعظم نے خود ہمارے غیر معمولی فوجی اور انٹیلیجنس تعاون کا اعتراف کیا ہے۔ ہماری فوجی مشقیں ماضی کے مقابلے میں بہت اعلیٰ سطح پر جا چکی ہیں۔ دفاعی نظام آئرن ڈوم میں ہماری مدد نے لاتعداد اسرائیلیوں کی جانیں بچائی ہیں۔ ہم نے تسلسل سے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی، جس میں اس کی غزہ میں کارروائی کے دوران بھی حمایت کی جس سے ایک بڑا تنازع بھی پیدا ہوا تھا۔

اوباما انتظامیہ نے چند دن قبل سلامتی کونسل میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے بارے میں پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا تھا اور ووٹنگ میں حصہ بھی نہیں لیا تھا۔ اوباما انتظامیہ کے اس اقدام کے بعد اسرائیل نے امریکہ پر شدید تنقید کی اور الزام عائد کیا کہ اس قرار داد کے منظور کیے جانے میں امریکہ نے پس منظر میں کردار ادا کیا ہے۔یاد رہے کہ فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں بستیوں کی تعمیر کے خلاف مصر نے قرار داد پیش کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد مصر نے اپنی قرارداد موخر کر دی تھی۔

اس کے بعد نیوزی لینڈ، وینزویلا، سینیگال اور ملائیشیا نے یہ قرار داد پیش کی جسے سلامتی کونسل میں بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔اسرائیل نے قرار داد کے حق میں ووٹ دینے والے ملکوں سے اپنے تعلقات میں سرد مہری برتنے کے بھی اشارے دیئے ہیں۔ماضی میں امریکہ نے سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کر کے اس کی مدد کرتا رہا ہے۔

تاہم اوباما انتظامیہ نے روایتی امریکی پالیسی ترک کر کے اس مرتبہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا تھا۔سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے جبکہ امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔دوسری جانب اسرائیل میں بیت المقدس کے میونسپل حکام کے مطابق سٹی ہال نے اسرائیلیوں کے لیے مشرقی یروشلم میں 500 کے قریب نئے گھروں کی تعمیر کے حوالے سے ووٹنگ منسوخ کر دی ہے۔یروشلم پلاننگ اینڈ ہاؤسنگ کمیٹی کے رکن حنان روبن کا کہنا ہے کہ صدر بن یامین نتن یاہو نے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔