پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کی بد عنوانیوں کی ریکوری موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق کرنے کی سفارش

لائن آف کنٹرول کے متاثرین کی بحالی کے نام پر 18کروڑ روپے بطور ایڈوانس ادائیگیوں کا انکشاف ، کمیٹی کے التوا کا شکار آڈیٹروں کی ویری فکیشن کروانے کے احکامات

بدھ 28 دسمبر 2016 16:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 28 دسمبر2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے ماضی میں کی گئی بد عنوانیوں ،بے قائدگیوں اور غبن کی ریکوری موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق کرنے کی سفارش کر دی، کمیٹی میں لائن آف کنٹرول کے متاثرین کی بحالی کے نام پر 18کروڑ روپے بطور ایڈوانس ادائیگیوں کا بھی انکشاف ، کمیٹی نے التوا کا شکار آڈیٹروں کی ویری فکیشن کروانے کے احکامات دے دیئے۔

پی اے سی کے فیصلوں پر عملدرامد کیلئے ذیلی کمیٹی کا اجلاس بدھ کو کنونیئر رانا افضال کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں ممبران کمیٹی ، وزارت امور کشمیر، خزانہ ، قانون و انصاف، منصوبہ بندی اور آڈٹ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں پی اے سی کے فیصلوں پر عملدرآمد اورگلگت بلتستان کی مختلف گرانٹس کا جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے پابندی کے باوجود پنجاب حکومت نے آزاد کشمیر حکومت کا ملکیتی پونچھ ہائوس خریدا جس کی 76کنال اراضی کی قیمت ابھی تک حکومت پنجاب نے ادا نہیں کی، جس پر کمیٹی نے ہدایت کہ حکومت پنجاب سے موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت وصول کی جائے یا پونچھ ہائوس خالی کروایا جائے ساتھ ہی کمیٹی نے سفارش کی کہ آئندہ بدعنوانی ، غبن اور دیگر بے قائدگیوں کی صورت میں ریکوری موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق کی جائے۔

آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ وزارت امور کشمیر نے 1998میں لائن آف کنٹرول پرمتاثرین کی بحالی کے نام پر مختلف نجی اداروں ،ہوٹل اورکلب کو مجموعی طور پر پونی19 کروڑ روپے بطور ایڈوانس ادا کئے گئے لیکن 18سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس کی ادائیگیوں کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، اتنے سال بعد بھی 70 فیصد سے زائد رقم کی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی۔

سیکریٹری امور کشمیر نے کہا کہ یہ پیسے آئی ایس آئی کو خرچ کرنے کیلئے دیے گئے۔کمیٹی نے استفسار کیا کہ چار سال پہلے تحقیقات کیلئے کہا گیا، کارروائی کیوں نہیں ہوئی ، کنونیئر رانا افضال نے کہا کہ یہ بادشاہ لوگ ہوتے ہیں جس کو مرضی پیسے دیدیں۔ رکن کمیٹی میاں عبدالمنان نے کہا کہ 18 سال گزر جانے کے باوجود رقم کا معاملہ طے نہیں پا سکا ، بتایا جائے کہ اس میں سے ایان علی کو بھی تو پیسے نہیں دیے گئی ۔ سیکرٹری امور کشمیر نے سارا ملبہ خفیہ اداروں کے سر ڈالنے کی کوشش کی تو کمیٹی کے رکن میاں عبدالمنان نے پول کھول دی کہ چیف سیکرٹری کی جانب سے اسلام آباد کلب کو بھی ادائیگیوں کی گئی ہیں جس پر کمیٹی نے التوا کا شکار آڈیٹروں کی ویری فکیشن کروانے کے احکامات دے دیئے