بعض طبقے ترقی پسندانہ قانون سازی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، سینیٹر فرحت اللہ بابر

قانون سازی کرنا صرف اراکین پارلیمنٹ کا اختیار ہے ،قومی سلامتی بریگیڈ ،نظریاتی بریگیڈ ہمیشہ قانون سازی میں روٹے اٹکاتے آئے ہیں، ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب

پیر 26 دسمبر 2016 21:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 دسمبر2016ء) پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ہے کہ قانون سازی کرنا صرف اراکین پارلیمنٹ کا اختیار ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان میں ’قومی سلامتی بریگیڈ‘ اور ’ نظریاتی بریگیڈ‘ ہمیشہ ترقی پسندانہ قانون سازی کی راہ میں روڑے اٹکاتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوتیں ترقی پسندانہ قوانین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کو قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ یہ ان کے ایجنڈے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ سندھ حکومت جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی میں ترمیم کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ اقدام بعض قوتوں کی جانب سے غیر معمولی دباؤ کے نتیجے میں کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام ’ ترقی پسندانہ قانون سازی: امکانات اور رکاوٹیں‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ غیر منتخب قوتوں کی جانب یہ دباؤ اس خاص ذہنیت کا نتیجہ ہے جس کی آبیاری ریاست کی جانب سے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران کی جاتی رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی میں ترمیم کی کوششوں پر سول سوسائٹی کو بھر پور آواز اٹھانی چاہئے اور حکومت اور اراکین پارلیمنٹ کو یاد دلانا چاہئے کہ انہوں نے کئی بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں جن کی رو سے کمزور طبقات کے لیے قانون سازی جیسے اقدامات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

پیس اینڈ دویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی سربراہ رومانہ بشیر ے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سندھ اسمبلی نے اگر جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی واپس لی تو اس سے ریاست کی کمزور مزید قاجح ہو جائے گی اور نتیجے میں اقلیتیں مزید مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہوجائیں گی۔انہوں نے کہا کہ رجعت پسند قوتوں نے پنجاب میں تحفظ نسواں ایکٹ کی منظوری پر بھی اسی شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا تاہم پنجاب حکومت کی جانب سے یہ قانون سازی واپس نہ لی گئی۔

اب سندھ حکومت کی جانب سے کمزوری کے اظہار کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ معروف صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں گزشتہ چند برسوں کے دوران ہندو خواتین اور لڑکیوں کے اغوا، جبری تبدیلی مذہب اور جبری شادیوں کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس کے نتیجے میںہندو برادری ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس عدم تحفظ کے خاتمے کے لیے یہ قانون سازی ناگزیر تھی ۔انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی قیادت ماضی میں سیاسی مصلحت کوشی سے کام لیتی رہی ہے جس کے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے اور بدقسمتی سے یہ روش ابھی تک جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ترقی پسندانہ قانون سازی واپس لینے کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ قانون سازی کا اختیار اراکین پارلیمنٹ کے پاس نہیں بلکہ یہ غیر منتخب گرپوں کے مرہون منت ہے۔سیمینار کے دوران ہندوبرادری کی رہنما جگ موہن کمار اروڑا نے بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے قانون سازی کے باعث اقلیتوں میں ایک بہتر کل کی امید پیدا ہوئی تھی جو اب تیزی سے مایوسی میں بدل رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :