صوبائی حکومت کرپشن کے خاتمے کیلئے 3 اہم ترین اداروں کے باوجود چوتھے ادارے کے قیام کیلئے سرگرم عمل

پیر 26 دسمبر 2016 18:40

سکردو (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 26 دسمبر2016ء) صوبائی حکومت کرپشن کے خاتمے کیلئے تین اہم ترین اداروں کے باوجود چوتھے ادارے کے قیام کیلئے سرگرم عمل ،نئے اداروں پر وسائل اور توجہ ضائع کی بجائے موجودہ اداروں کو فعال کیاجائے۔ واقفان حال کے مطابق گلگت بلتستان میں کرپشن ،غیر قانونی تقرریاں مالی خرد برد اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کیلئے وفاقی سطح کے دو اہم ترین ادارے وسائل اور ریاستی طاقت سے لیس ہیں اور گزشتہ پانچ چھ سالوں سے دفاتر ،گاڑیاں اور ملازمین کی شکل میں سالانہ کروڑوں روپے کا بجٹ استعمال کر تے ہیں اس کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی مذکورہ بالا دھندوں کو لگام دینے اور کرپٹ عناصر کو کیفر دار تک پہنچانے کیلئے سی ایم آئی ٹی کانام کا ایک بااختیار ادارہ موجود ہے جو صرف وزیر اعلیٰ کو بلا ناغہ اور چیف سیکریٹری کو حسب ضرورت رپورٹ کرتا ہے اسی طرح دونوں وفاقی تحقیقاتی ادارے اتنے موثر اور مضبوط ہیں کہ وہ بڑے بڑے مگر مچھوں کو سیدھا کرنے کی طاقت و صلاحیت رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

واقفان حال کے مطابق وفاقی اور صوبائی سطح کے ان اداروں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری ادارے میں ہونے والی ہر قسم کی بے ضابطگیوں کے مرتکب سرکاری ملازمین کو قانون کے شکنجے میں جکڑ سکتے ہیں لیکن مشاہدے کے مطابق ان اداروں نے اپنے قیام سے لیکر تاحال سوائے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے بعض آفسیران کے علاوہ دیگر اداروں کی طرف سنجید گی سے توجہ ہی نہیں دی ہے حالانکہ جی بی کی 80فیصد معاشی سرگرمیوں کے مرکز محکمہ تعمیرات عامہ واسا اور محکمہ برقیات میں اب بھی ایک سے بڑھ ایک مگر مچھ نہ صرف اختیارات انجوائے کر رہے ہیں بلکہ ان اداروں کے اندر تک اپنے ہمدرد تلاش کر لئے ہیں اور مزید قومی وسائل لوٹنے میں مصروف ہیں۔

واقفان حال کے مطابق تین اہم ترین تحقیقاتی اور کرپشن کیخلاف قائم اداروں کی موجودگی میں بہتر ہوناکہ مزید اینٹی کرپشن کے اداروں کے قیام پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کر نے کی بجائے موجودہ اداروں کو ہی فعال بنایا جاتا ۔واقفان حال کے مطابق ہمارے موجودہ نظام میں اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ جس کام کو حقیقت میں انجام تک نہیں پہنچاتا ہے وہاں کمیٹیاں بنائی جائیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت نئے اداروں پر کروڑوں روپے ضائع کر کے تجربات کرانے کی بجائے پرانے اداروں سے کرپشن مکائو مہم پر سنجیدگی سے گہری توجہ دے اور نئے اداروں کے قیام پر اٹھنے والے کروڑوں روپے سالانہ ممکنہ اخراجات کو پورے صوبے میں ضرورت کی بنیاد پر اہم ترین مسائل کو حل کرنے پر خرچ کرے۔

متعلقہ عنوان :