مزار پر گئی تو فوراً ہی ماڈلنگ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ‘ماڈل عطیہ خان

’صوفی ازم‘ پر ایک ڈاکومنٹری بنا رہی ہوں اور اسے جلدمکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں

اتوار 25 دسمبر 2016 11:30

مزار پر گئی تو فوراً ہی ماڈلنگ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ‘ماڈل عطیہ خان

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 دسمبر2016ء) شوبز کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چکاچوند چھوڑ کر روحانی سکون اور امن کی تلاش میں کسی خانقاہ پر جا بیٹھنا آسان کام نہیں اور اس کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں، جن میں سے ایک ماضی کی سپرماڈل عطیہ خان ہیں جو امن کی تلاش میں اب حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر جا بیٹھی ہیں۔ عطیہ خان 80ء کی دہائی میں تسلسل کے ساتھ موقر جریدوں کے سرورق کی زینت بنتی رہی ہیں اور فیشن ویکس میں شرکت کرتی رہی ہیں۔

اس دوران انہوں نے پاکستانی فیشن انڈسٹری کے ہر بڑے نام کے ساتھ کام کیا۔ انہوں اس وقت ماڈلنگ کو خیر باد کہہ دیا جب وہ اپنے کیریئر کے عروج پر تھیں اور آج وہ دوسری ماڈلز کو بھی یہی مشورہ دیتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق 13سال قبل عطیہ خان نے ماڈلنگ چھوڑی اور اسلام کا اصل تشخص پانے کے لیے روحانی سفر پر نکل پڑیں۔

(جاری ہے)

اس میں ان کی رہنمائی عصرحاضر کے صوفی شیخ نظام الحقانی نے کی۔

انہوں نے اسے لعل شہباز قلندر کے مزار کا راستہ دکھایا اور بتایا کہ وہاں تمہیں دلی سکون مل سکتا ہے، جس کی تم متلاشی ہو۔عطیہ خان کا کہنا ہے کہ ’’میری زندگی تحیر سے لبریز ہے۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کئی جادوئی روابط سے منسلک ہوں۔ میں نہیں جانتی کہ اس کا ماڈلنگ سے کچھ علاقہ ہے یا نہیں۔‘‘رپورٹ کے مطابق عطیہ خان 21سال کی عمر میں ریٹائر ہو گئی تھیں۔

اپنے کیریئر میں وہ کبھی ’نمبرون‘ کی دوڑ میں شامل نہیں ہوئیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ سرفہرست رہنے کی جدوجہد کبھی نہیں تھی۔ میرے وقت میں ماڈلنگ ایک ’شوق‘ ہوا کرتا تھا، یا پھر ہمارے لیے جنرل ضیاء کے دورحکومت کی بنیاد پرستی کو چیلنج کرنے کا ایک طریقہ ہوا کرتی تھی۔ ہم محسوس کرتے تھے کہ ہم جنگجو ہیں جو بنیاد پرستی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

اس وقت ماڈلنگ ایک کاروبار ہے اور ایک ’’آڑ‘‘۔ڈراموں میں اداکاری نے مجھے مصروف رہنے میں بہت مدد کی۔ میں ’صوفی ازم‘ پر ایک ڈاکومنٹری بنا رہی ہوں اور اسے جلدمکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘‘ پاکستانیوں سے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’’پاکستانیوں کو اپنے اندر اپنے ملک کی ملکیت کا احساس بیدار کرنا چاہیے۔‘‘