ایوان بالا ،مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے اظہار خیال

جمعرات 22 دسمبر 2016 22:36

اسلام آباد ۔22دسمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 دسمبر2016ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے کمیشن کی رپورٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں آپس میں لڑنے کی بجائے دہشتگردوں کے خلاف متحد ہونا چاہیے‘ حکومتی ارکان نے کہا کہ اپوزیشن کمیشن کی رپورٹ کی بجائے صرف وزیر داخلہ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔

جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ ایسے واقعات کو مذمت کے بعد بھلا دیا جاتا ہے۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ یہ بہت بڑا سانحہ تھا جس میں قابل لوگ لقمہ اجل بنے۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ حکومت دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرے۔

(جاری ہے)

سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ شائع ہونا خوش آئند ہے۔

ہمیں رپورٹ پر بحث کرنی چاہیے اسے حکومت اور اپوزیشن کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ رپورٹ میں سرحدوں کو محفوظ بنانے اور سرحدی آمدورفت کو دستاویزی شکل دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ اپوزیشن کو بھی رپورٹ کو غیر ضروری طور پر اچھالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ رپورٹ نے صوبائی حکومت کی کمزوریاں بھی اجاگر کی ہیں، انہیں اس کا جواب دینا چاہیے تھا۔

میں وزیر داخلہ کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا، سسٹم ہی خراب ہے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ ہمیں اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ سانحہ کوئٹہ پر استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے ایبٹ آباد کے سانحہ کے بعد خود بھی استعفیٰ دیتے۔ اپوزیشن ارکان نے صرف چوہدری نثار پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ کراچی میں لوگوں کو زندہ جلانے کے واقعہ کے بعد انہوں نے کیا کارروائی کی۔

سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ میں وکلاء کی ایک پوری نسل کو ختم کردیا گیا۔ اس سانحہ پر سیاست ہو رہی ہے۔ بحث کا مرکز وزیر داخلہ کی ذات ہے حالانکہ رپورٹ میں کئی اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر ازسر نو غور کرنا چاہیے۔ سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ پر کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کیا جائے‘ حکومت امن و امان کے قیام پر توجہ دے۔

سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ بڑی تعداد میں وکلاء کی شہادت سے بلوچستان میں وکلاء اور پڑھے لکھے لوگوں کا ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔ آج اپوزیشن ارکان کے طرز عمل پر افسوس ہو رہا ہے۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ ہمیں دہشتگردی کا مقابلہ متحد ہو کر کرنا ہے اور الحمد للہ ہم اس میں کامیاب ہیں۔ کمیشن نے جو سفارشات دی ہیں ان پر عمل ہونا چاہیے۔

امن و امان کا مسئلہ صوبوں سے بھی متعلقہ ہے اور مختلف اداروں سے بھی ہماری کامیابیاں اور ناکامیاں مشترکہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سانحہ کوئٹہ جیسے سانحات پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ تنقید کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا۔ وزیر داخلہ پر تنقید کرنا ان کا وطیرہ ہے، ہر چیز کا الزام وزیر داخلہ پر لگا دیا جاتا ہے۔

وزیر داخلہ نے بہت محنت کرکے معاملات کو بہتر کیا ہے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد امداد کن لوگوں میں تقسیم ہوئی اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ہمیں اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ وزیر داخلہ کی کالعدم جماعتوں کے رہنما سے ملاقات کا جواز پیش کیا گیا۔ سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ ملک کی بہت تباہی ہو چکی ہے، ہم آپس میں دست و گریبان ہیں ہمیں متحد ہونا چاہیے۔

متعلقہ عنوان :