نیب نے بدعنوانی کے دو بڑے سکینڈلز میں بدعنوان عناصر سے ریکارڈ ساڑھے چار ارب روپے وصول کئے

گزشتہ چار سال کے دوران رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے ذریعے مجموعی طور پر بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 45 ارب 37 کروڑ روپے وصول کئے گئے، ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نیب سید ظاہر شاہ کی پریس کانفرنس

جمعرات 22 دسمبر 2016 21:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 دسمبر2016ء) قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز سید ظاہر شاہ نے کہا ہے کہ نیب نے بدعنوانی کے دو بڑے سکینڈلز میں بدعنوان عناصر سے ریکارڈ ساڑھے چار ارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں، نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 284 ارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں، گزشتہ چار سال کے دوران رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے ذریعے مجموعی طور پر بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 45 ارب 37 کروڑ روپے وصول کئے گئے ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کویہاں نیب ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ مئی 2016ء میں لوکل گورنمنٹ بلوچستان میں بدعنوانی کا سکینڈل سامنے آیا، نیب نے مناسب معلومات ملنے پر چھاپہ مار کر ملزمان سے 65 کروڑ 32 لاکھ نقدی اور جواہرات برآمد کئے۔

(جاری ہے)

نیب کو انکوائری کے دوران معلوم ہوا کہ سلیم شاہ نامی ایکسین جو کہ مشیر خزانہ خالد لانگو کا منظور نظر تھا، اسے ہر اس جگہ پر تعینات کر دیا جاتا تھا جہاں فنڈز فراہم کرنا ہوتے تھے۔

مذکورہ ملزم نے گرفتاری کے بعد بتایا کہ وہ یہ سب کچھ مشیر خزانہ کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ پانچ افراد کے نام پر جائیداد خریدی گئی ہے، جن لوگوں کے نام پر یہ جائیداد خریدی گئی، انہیں خود معلوم نہیں تھا کہ ان کے نام پر اراضی خریدی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے نام پر ڈی ایچ اے کراچی میں 11 جائیدادیں خریدی گئیں، ان جائیدادوں میں دو کمرشل پلازے، تین بڑے گھر، 6 رہائشی پلاٹ، اور دو قیمتی گاڑیاں شامل ہیں۔

ان 11 بے نامی جائیدادوں کی قیمت خرید ایک ارب 25 کروڑ روپے بنتی ہے جبکہ اس کے علاوہ مذکورہ ملزم کے نام پر کوئٹہ میں گھر ہیں جن کی مالیت چھ کروڑ روپے بنتی ہے، ملزم کی 11 جائیدادوں کے علاوہ کل اثاثہ جات کی مالیت 80 کروڑ روپے بنتی ہے، اس مقدمہ میں دوسرا ملزم مشیر خزانہ خالد لانگو کا فرنٹ مین ٹھیکیدار سہیل مجید شاہ ہے جس کے اکائونٹ میں 96 کروڑ روپے منتقل ہوئے۔

ان دونوں ملزموں سے پلی بارگین کے ذریعے حاصل کی گئی مجموعی رقم کی مالیت 3 ارب 25 کروڑ روپے بنتی ہے۔ یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ان ملزمان نے انکوائری کے دوران رقم کی رضاکارانہ واپسی کی درخواست دی جسے نیب نے مسترد کر دیا تاہم انوسٹی گیشن کے دوران ان کی پلی بارگین کی درخواست کو قبول کرلیا گیا ہے کیونکہ پلی بارگین کے دوران ملزم کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہے اور قانون کے مطابق اسے سزا دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کو ملزم کی پلی بارگین کی درخواست منظور کرنے کا اختیار ہے۔ تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ متعلقہ عدالت کرتی ہے۔ پلی بارگین کرنے والا مجرم کسی بھی سرکاری عہدہ کے لئے 10 سال کے لئے نااہل قرار پاتا ہے۔ اگر وہ کسی عہدے پر کام کر رہا ہوتا ہے تو اس کی ملازمت ختم ہو جاتی ہے اور وہ کسی بھی بینک سے 10 سال کے لئے لین دین کرنے کے لئے بھی نااہل قرار پاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مقدمہ میں مشیر خزانہ اور دیگر ملزمان کے خلاف تحقیقات حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔ ان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کے اکائونٹس منجمد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مقدمہ میں دو سب ڈویژنز کے لئے لوکل گورنمنٹ کے تحت 2014-15ء کے بجٹ میں 6 ارب روپے مختص کئے گئے تھے جن میں سے 2 سب ڈویژن کے لئے 3 ارب روپے جاری ہو چکے ہیں جن میں مذکورہ ملزموں نے بدعنوانی کی۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے 40 ارب روپے کرپشن کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔ نیب نے ان ملزمان سے ریکارڈ وصولی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور مقدمہ میں ایک ارب 11 کروڑ روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ نیب کو معلوم ہوا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے 2012ء میں 12 کمپنیوں کو غیر قانونی طریقے سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں نے مکمل جائزہ لئے بغیر اور کک بیکس کے ذریعے ان کی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی۔ ان کمپنیوں نے 2012ء سے 2016ء کے دوران صارفین سے ایک ارب روپے سے زائد منافع کمایا ہے۔ چھ کمپنیوں نے پلی بارگین کی درخواست کی جسے نیب نے منظور کرلیا ہے۔ ان کمپنیوں سے 2012ء سے 31 اکتوبر 2016ء تک ان ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی مد میں لوٹے گئے ایک ارب 11 کروڑ روپے پلی بارگین کے ذریعے وصول کئے گئے ہیں جبکہ ایک کمپنی کے ملازمین گرفتار ہیں۔

اس مقدمہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے آٹھ افسران بھی زیر حراست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند روز کے دوران نیب نے مجموعی طور پر پلی بارگین کے ذریعے ساڑھے چار ارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوان عناصر سے لوٹی گئی رقم کی پائی پائی قومی خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم کے خلاف نیب کی سزا کی شرح 76 فیصد ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب نے 2012ء سے اکتوبر 2016ء تک پلی بارگین کے ذریعے چھ ارب روپے اور رضاکارانہ واپسی کے ذریعے 13 ارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی کے ذریعے مجموعی طور پر 45.37 ارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ نیب نے 917 ملزموں سے پلی بارگین اور 2900 ملزموں سے رضاکارانہ واپسی کے ذریعے لوٹی گئی رقم وصول کی

متعلقہ عنوان :