سانحہ کوئٹہ پر کمیشن کی رپور ٹ میں موجود اہم ثبوتوں کے تحت ذمہ داروں کو قانون کی گرفت میں لایا جا سکتا ہے، وزیر داخلہ کی جارحانہ پریس کانفرنس سے لگتاہے کہ حکومت پھر سپریم کورٹ کو تقسیم کرناچاہتی ہے ، خطرے کی گھنٹی کی آواز سن رہا ہوں،پارلیمانی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ جس شخص کے خلاف رپورٹ آ جائے وہ فوری مستعفی ہوجائے

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن کا ایوان بالا میں سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ بارے تحریک التواء پر اظہار خیال مت کی نیت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی دہشت گردی کے خلاف کیا سنجیدگی ہے، طاہر مشہدی کالعدم تنظیموں کو حکومت کی حمایت حاصل ہے، سینیٹر سحر کامران ، کمیشن کی رپورٹ اہم ہے ، سسی پلیجو

جمعرات 22 دسمبر 2016 21:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 دسمبر2016ء) سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے کہاہے کہ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کی رپور ٹ میں اہم ثبوت موجود ہیں، جن کے تحت ذمہ داروں کو قانون کی گرفت میں لایا جا سکتا ہے، رپورٹ میں وزارت داخلہ کے خلاف رائے کا اظہار کیا گیا ہے،وزارت داخلہ کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حق حاصل ہے یہ سول جج نہیں، سپریم کورٹ کے جج کی رپورٹ ہے، پارلیمانی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ جس شخص کے خلاف رپورٹ آ جائے وہ درست ہو یا نہ ہو بغیر کسی کے کہنے کے اپنا استعفیٰ دیدے، استعفیٰ دینے کی بجائے میڈیا میں آ کر جج اور انکوائری کے خلاف انوکھے انداز میں بات کی گئی ،وزیر داخلہ نے جارحانہ انداز سے بیان دئیے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کو پھر تقسیم کریں گے اور قاضی فائز عیسیٰ کو سجاد علی شاہ بنائیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا یہ پیغام دیا ہے کہ جو ہمارے ساتھ چلتا ہے وہ صدر اور گورنر بھی بن سکتا ہے اور شبہ ہے کہ سپریم کورٹ پر پھر مشکل وقت آنے والا ہے،خطرے کی گھنٹی کی آواز سن رہا ہوں۔جمعرات کو کوئٹہ میں سول ہسپتال میں دہشت گردی کے واقعہ کے حوالے سے کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ بارے پیش کی گئی تحریک التواء پرا ظہار خیال کر رہے تھے ۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ بلوچستا کے اندوہناک سانحہ کے بارے میں رپورٹ آ گئی ہے ‘ کوئٹہ بار کے صدر بلال کاسی کو بے دردی سے شہید کیا گیا اور اس کے بعد جو واقعہ ہوا دونوں میں رابطہ تھا۔

رپورٹ 110 صفحات پر مشتمل ہے اور سپریم کورٹ کے پاس پیش ہو گی اور سپریم کورٹ ردعمل دے گی اس کو ابھی تک حتمی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس میں ثبوت موجود ہیں جس کے تحت ذمہ داروں کو قانون کی گرفت میں لایا جا سکتا ہے۔ اس میں وزارت داخلہ کے خلاف رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حق حاصل ہے یہ سول جج کی رپورٹ نہیں ہے سپریم کورٹ کے جج کی رپورٹ ہے۔

پارلیمانی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ شخص کے خلاف رپورٹ آ جائے وہ درست ہو یا نہ ہو بغیر کسی کے کہنے کے اپنا استعفیٰ دیدے۔ یہ رائج الوقت سیاسی اخلاقی قدر ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کے قلم کی وجہ سے ان کے خلاف الزامات کو تقویت ملی ہے۔ استعفیٰ دینے کی بجائے میڈیا میں آ کر جج اور انکوائری کے خلاف انوکھے انداز میں بات کرتے ہیں۔ خطرے کی گھنٹی کی آواز سن رہا ہوں۔

مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ سے متعلق ایک تاریخ ہے وہ زیادہ سنہری نہیں ہے۔ اس پر یلغار جو گزشتہ ایک ہفتہ سے سنی جا رہی ہے خطرے کی گھنٹی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو ماضی میں کرپشن کی بنیاد پر حکومت سے نکالا گیا اور سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا اور کورٹ کا شفیق رشتہ اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے بے نظیر بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے 1998ء میں وزیر اعظم نوز شریف کو مخاطب کیا تو ایک دن بعد سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا ۔ بنچ کو وہاں سے بھاگنا پڑا اور عدالت پر یلغار کی گئی اس کے بعد سپریم کورٹ کو تقسیم کیا گیا۔ اس دوران پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) کے ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اس پر سینیٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ آج لگتا ہے حکومت کو سننے کا حوصلہ ہے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ ماڈل ٹائون کے واقعہ کے بعد جج کے کمیشن کی حکومت کے خلاف رپورٹ آ گئی لیکن آج تک سامنے نہیں آئی۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جس طرح وزیر داخلہ نے جارحانہ انداز سے بیان دئیے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کو پھر تقسیم کریں گے اور قاضی فائز عیسیٰ کو سجاد علی شاہ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا یہ پیغام دیا ہے کہ جو ہمارے ساتھ چلتا ہے وہ صدر اور گورنر بھی بن سکتا ہے اور شبہ ہے کہ سپریم کورٹ پر پھر مشکل وقت آنے والا ہے۔

سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس متنول مزاج ہیں اور ان کے لئے بڑا امتحان ہے اور آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر نظر آتی ہے۔ اس کا بلوچستان کی بار اور عدلیہ کیلئے اچھا اثر نظر نہیں آ رہا ہے۔ حکومت اپنی جبلتوں سے باز آ کر صبر کا اظہار کرے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جرات کو سلام پیش کرتی ہوں جنہوں نے محنت سے اچھی رپورٹ لائی۔

جس سے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوا۔ بلوچستان میں بے شمار دہشت گردوں کے حملے ہوئے اور بے شمار لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں لیکن حکومت خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں دہشت گردی کے خلاف پہلا کامیاب آپریشن کرایا۔ نیشنل ایکشن پان تو ایکشن پلان پنجاب بن چکا ہے کالعدم تنظیم کا فرد الیکشن جیت کر اسمبلی میں بیٹھے گا اور کالعدم تنظیم کا اجلاس اسلام آباد ہوتا ہے۔

کالعدم تنظیموں کو حکومت کی حمایت حاصل ہے ۔ افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے کوئی کام نہیں ہوا۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہاکہ دہشت گردوں نے بلوچستان میں ایک نسل کو ختم کر دیا۔ سب سے بڑی ذمہ داری وزارت داخلہ پر ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ وزیر داخلہ ذاتی انا سے باہر نہیں آتے۔ دہشت گردی کے ناسور کا اپنی اناء سے نکل کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

کمیشن کی رپورٹ اہم ہے۔ سینیٹر کر نل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ جمہوری حکومت میں رپورٹ آتی تو وزارت داخلہ اس کی تعریف کرتی اور کمیشن نے مقصد کو پورا کرتی۔ حکومت کی نیت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی دہشت گردی کے خلاف کیا سنجیدگی ہے۔ رپورٹ میں کسی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے اصل صورتحال کی نشاندہی کی ہے۔ دہشت گردوں کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کو چائے پر بلایا۔ نیشنل ایکشن پلان تو الیکشن پلان بن گیا ہے۔ دہشت گردوں کو حکومت تحفظ دے رہی ہے۔ حکومت رپورٹ کو پڑھ کر سفارشات پر عمل کرے اس سے ملک کو فائدہ ہو گا۔ …(رانا+و خ)