بھارتی فورسز کے تشدد کے شکار کشمیری مسلسل خوف اور صدمے کی زندگی گزارنے پر مجبور

ہزار کشمیری مستقل طور پر ’لاپتہ‘ ،ان کے رشتہ دار آج تک نہ ختم ہونے والے دکھ، تکلیف اور قرب میں مبتلا فورسز کے اضافے کے ساتھ کشمیریوں کے دکھ اور تکلیفوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، میڈیا رپورٹ

جمعرات 22 دسمبر 2016 17:48

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 دسمبر2016ء) بھارتی فورسز کے ہاتھوں تشدد کے شکار ہونے والے کشمیری مسلسل خوف اور صدمے کی زندگی گزار رہے ہیں۔8 ہزار کشمیری مستقل طور پر ’لاپتہ‘ ہیں اور ان کے رشتہ دار آج تک نہ ختم ہونے والے دکھ، تکلیف اور قرب میں مبتلا ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق کشمیر میںفورسز کے اضافے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے دکھ اور تکلیفوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سری نگر کے ہر کونے میں فوجیوں کی گاڑیاں اور چیک پوسٹیں بن چکی ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابقپرویز احمد کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے سات برس پہلے گرفتار کیا تھا اور کشمیر کے ایک ہسپتال میں آج تک ان کا علاج جاری ہے۔ آج بھی جب وہ بھارتی فورسز کے تفتیشی طریقہ کار کے بارے میں بتاتے ہیں تو ان کے چہرے پر درد، دکھ اور تکلیف کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

پرویز احمد ابھی تک راتوں کو ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں۔ صدمے سے دوچار اس38 سالہ کشمیری کی تھراپی کی جا رہی ہی ۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے ہر وقت فکر رہتی ہے کہ وہ دوبارہ آئیں گے اور مجھے گرفتار کر کے لے جائیں گے۔سری نگر میں شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کی ڈاکٹر ارشاد حسین کا کہنا ہیکہ ان کے پاس ایسے مریضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ہم روزانہ تقریبا 190 مریضوں کو دیکھ سکتے ہیں اور میں اوسطاًایک سو مریضوں کو دیکھتا ہوں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 1980ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں تقریباایک لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان دنوں بھی کشمیر کے حالات کشیدہ ہیں اور جولائی کے بعد سے ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق وادی کشمیر میں پندرہ لاکھ سے زائد افراد میں ڈپریشن یا ذہنی دباؤکی علامات موجود ہیں۔

ہزاروں کشمیری ایسے ہیں، جن کے رشتہ دار بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں اور وہ ابھی تک صدمے سے دوچار ہیں۔ ایسے ہی مریضوں میں سے ایک محمد شفیع بھٹ ہیں۔ ان کے 23 سالہ بیٹے بشیر احمد کو2014ء میں بھارتی فوجیوں نے گولی مار کر شہید کر دیا تھا اور صدمے کی وجہ سے محمد شفیع اپنی قوت گویائی سے محروم ہو گئے تھے۔ ان کا بھی علاج جاری ہے تاکہ وہ دوبارہ بولنے کے قابل ہو سکیں۔

پچاس سالہ محمد شفیع نے اپنے بٹوے میں اپنے بیٹے کی تصویر محفوظ کر رکھی ہے اور اسے دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ غم کی وجہ سے ایسے مریضوں کی صورتحال پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔بہت سے کشمیری ایسے ہیں، جنہیں اپنے رشتہ داروں کی لاشیں مل جاتی ہیں اور بہت سے ایسے ہیں، جنہیں آج تک یہ معلوم نہیں کہ ان کے رشتہ داروں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔

رحما بیگم کا بیٹا تیرہ برس پہلے لاپتہ ہو گیا تھا۔ گمشدگی کے بعد وہ مسلسل تین برس تک فجر کے بعد اٹھتے ہی قریبی جنگل میں اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے نکل جاتی تھیں کہ شاید انہیں اپنے بیٹے کا کوئی سراغ مل جائے۔ لیکن آخر کار انہیں قبول کرنا پڑا کہ وہ اپنے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھ پائیں گی۔ رحما بیگم کا کہنا ہیکہہر کوئی مجھے کہتا تھا کہ اس طرح تم پاگل ہو جاؤ گی، شاید یہ پاگل پن ہی تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تفتیشی عمل کے لیے گرفتار ہونے والے تقریباہزاروںکشمیری مستقل طور پر ’لاپتہ‘ ہیں۔ سکیورٹی فورسز ’لاپتہ افراد‘ کی لاشیں دریاؤں میں پھینک دیتی ہے یا پھر بے نام قبروں میں دفن کر دیتی ہیں۔

متعلقہ عنوان :