سیمنٹ انڈسٹری نی189 ارب روپے ٹیکسز کی مد میں جمع کرائے ہیں

بدھ 21 دسمبر 2016 20:27

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 دسمبر2016ء) گزشتہ چار برسوں میں سیمنٹ انڈسٹری حکومت کو سب سے زیادہ آمدنی فراہم کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے اور اس ضمن میں189 ارب روپے ٹیکسز کی مد میں جمع کرائے گئے ہیں۔ یہ رقم سال 2012-13ء میں جمع کرائے گئے 39 ارب روپے سے دوگنا زائد تقریباً 83 ارب روپے سال 2015-16ء میں تھی۔چیئرمین آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن(اے پی سی ایم ای) طارق سعید سہگل نے کہا کہ انڈسٹری کی اس دوران زیادہ فروخت رہی ہے اور پیداوار 38.87 ملین ٹن تک پہنچ گئی ہے جو پہلے 2012-13 ء میں 33.43 ملین ٹن تھی۔

حکومت کی آمدن میں ہونے والا اضافہ ڈیوٹیز اور ٹیکسز میں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے ہے جو 1551 روپے فی ٹن سے بڑھ کر 2492 روپے ہو گئے ہیں جو تقریباً 60 فیصد اضافہ بنتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سیمنٹ کی قیمتوں کو کم کرنے اور صارفین کو سہولت پہنچانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی مد میں کمی کی جائے اور یہ عمل انڈسٹری کی ترقی میں بھی معاون ثابت ہوگا۔

سیمنٹ انڈسٹری ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے برآمدات میں مسلسل کمی ہونے کے باوجود سیمنٹ کی پیداوار میں شاندار اضافہ ہوا ہے، ملکی سیمنٹ برآمدات سال 2012-13ء میں 8.57 ملین ٹن تھیں جس میں اب تک 46 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے اور اس کی سطح سال 2015-16 ء میں 5.87 ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ تاہم، مقامی کھپت میں اضافے کی وجہ سے سیمنٹ کی صنعت کو سہارا ملا ہے۔

سیمنٹ کی برآمدات میں ہونے والی کمی کے عوامل میں ایندھن اور دیگر پیداواری عناصر کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ درآمدی ملکوں کی جانب سے پاکستان سیمنٹ کے لیے کھڑی کی جانے والی بندشیں بھی ایکسپورٹ کی کمی کی بڑی وجہ ہیں۔ ان بندشوں میں جنوبی افریقہ کی جانب سے مقامی صنعت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا نفاذ شامل ہے۔

اسی طرح درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے بھارت کی جانب سے درآمدی سیمنٹ پر 19 فیصد امپورٹ ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے جس میں تعلیم کے فروغ کے لیے 3 فیصد ایجوکیشن سیس کی ڈیوٹی شامل ہے۔ اس طرح پاکستان کو دیگر سیمنٹ برآمدی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ مشکلات درپیش ہیں جن کی پیداواری لاگت کم ہے۔ملک میں سی پیک اور دیگر حکومتی منصوبوں کے باعث سیمنٹ کی طلب میں اضافہ ہوا ہے ، اس حوالے سے سیمنٹ انڈسٹری نے دو سال کے دوران اپنی استعداد میں 44 ملین ٹن سے 60 ملین ٹن تک کا اضافہ کیا ہے۔

اس طرح سیمنٹ کی درآمد کا سوچنا بھی غیر دانش مندانہ اقدام ہوگا۔چیئرمین اے پی سی ایم اے نے کہا کہ اس وقت جب دنیا بھر میں مقامی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے درآمد پر بندشیں عائد کی جارہی ہیں اس پس منظر میں کچھ حلقوں کی جانب سے ملک کی مقامی پیداوار کے خلاف درآمدی سیمنٹ کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ یہ عمل تمام معاشی نظریوں کے خلاف ہے۔

ان حلقوں کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدام کی تجویز سے قبل ڈیوٹی کے ختم کئے جانے والے اثرات جاننے کے لیے دیگر صنعتوں جیسے ٹائل اور ٹائر انڈسٹری کا جائزہ لیں۔سیمنٹ صنعت میں فیول کا استعمال 60 فیصد سے 70 فیصد تک اس کی مجموعی پیداواری لاگت ہے۔ انڈسٹری نہ صرف کوئلے کی درآمد پر عائد 11.7 فیصد ڈیوٹی برداشت کرتی ہے بلکہ کوئلے کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے مالی بوجھ کو بھی برداشت کررہی ہے۔ (مئی 2016ء میںکوئلے کی قیمت 54 ڈالر تھی جو بڑھ کر 105 ڈالر ہوگئی ہی)۔ تاہم اس کے باوجود انڈسٹری پر صارفین سے زیادہ قیمت وصول کرنے کا تاثر دیا جاتا ہے۔