جماعت اسلامی کے پارلیمانی مشاورتی کونسل کے اجلاس کی انتخابی اصلاحات و کرپشن بارے قرارداد

پیر 19 دسمبر 2016 18:59

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 دسمبر2016ء) جماعت اسلامی پاکستان کی پارلیمانی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیکر کہا گیا ہے کہ حکومت کے بلند و بالا دعوئوں کے برعکس پاکستانی عوام بدامنی ،بے روزگاری ،مہنگائی ،کرپشن بے انصافی کی چکی میں پس رہی ہے۔عوام کو تعلیم اور علاج جیسے بنیادی حق سے محروم کردیا گیا ہے ،دوکروڑ بچے تعلیمی اداروں سے باہر تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کررہے ہیں،سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر تین تین مریض پڑے ہیں ۔

ملک کی70 فیصد آبادی کوپینے کا صاف پانی میسر نہیں اور40فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ،جبکہ حکمران ملک و قوم کے ان گھمبیر مسائل سے بے پروا اپنے لئے عیش و عشرت کے محل تعمیر کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

پانامہ لیکس ہماری قومی تاریخ میں ایک بدنما داغ ہے اور حکومت اس میگا کرپشن کا حساب کرنے کے بجائے خود مکر وفریب بہانہ بازیوں کے ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے عالمی سطح پرملک کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے ۔

اجلاس اس پوری صورتحال کو تشویشناک قرار دیتا ہے ۔اجلاس میں اس امر کا بھی جائز ہ لیا گیا کہ الیکشن 2013ء کے بعد ملک کی ساری پارٹیوں نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔خود الیکشن کمیشن نے بھی انتخاب کے روز اپنی جزوی ناکامی کو تسلیم کیا تھا بعد ازاں حکومت نے انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کو آزاد اور خودمختار بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ سارا عمل جان بوجھ کر سست روی کا شکار بنایا تھا۔

جماعت اسلامی کی پارلیمانی مشاورتی کونسل کا یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ 2018کے انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے موجودہ انتخابی نظام کسی طور بھی آئین کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے موجودہ انتخابی نظام میں عوام رائے دہی میں آزاد نہیں ہیں۔پاکستان میں الیکشن پیسے کاکھیل بن گیا ہے،جس میں دولت مند اشرافیہ نے دھونس اور دھاندلی کے ذریعے عوام کی رائے کویرغمال بنارکھاہے۔

چند خاندانوں پر مشتمل اشرافیہ کاطبقہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت اور دولت کے زور سے پولیس، انتظامیہ سمیت ٹی وی سکرین کے تجزیے تک خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کی خامی کے باعث ، مختلف دولت مند مافیاز نے سیاست میں سرمایہ کاری کرکے ، اسے مزید دولت کمانے اور اپنے تحفظ کاذریعہ بنا لیا ہے۔انتخابی مہم میں ہر سیاسی پارٹی اور امیدوار کے انتخابی اخراجات کی حد بندی کی جائے تاکہ الیکشن پیسے کاکھیل نہ رہے اور پاکستان کے ہر شہری کے لیے الیکشن میں حصہ لینا ممکن بنایاجائے۔

پارلیمانی کمیٹی میں جماعت اسلامی کی پیش کردہ تجویز کے مطابق متناسب نمائندگی کانظام اپنا کر الیکشن میں دولت کی ریل پیل کااثر روکا جاسکتا ہے۔اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں آئی ڈی پیز کے مسائل کو فوری طو رپرحل کیا جائے ،آئی ڈی پیز نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر پاکستان کو محفوظ بنایا لیکن حکومت انہیں بھول کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کررہی ہے ۔

اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ نادرا خیبر پختونخواہ اور کراچی کے شہریوں کے شناختی کارڈز کی بلاجواز منسوخی کے فیصلے کو واپس لے اور عام شہریوں اور تاجروں کو تنگ کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے ۔بلوچستان کے بلدیاتی نمائندوں کو اٹھارویں ترمیم A140کے تحت صوبائی بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کرکے فی الفور اختیارات اور مالی معاونت دی جائے ۔بلوچستان میں سی پیک کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ٹیکنیکل افراد قوت کی تیار ی کیلئے صوبہ میں بڑے پیمانے پر ٹیکنیکل ایجوکیشن کے پروگرامات شروع کئے جائیں اور ٹیکنیکل اداروں میں شفاف طریقے سے مقامی افراد کو داخلہ دیا جائے ۔

اجلاس اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ حکمران ملک میں آئینی اداروں کو فعال بنانے کی بجائے آئین اور دستور کو پس پشت ڈال کر آمرانہ طرز حکومت کو رواج دے رہے ہیں ،اجلاس سندھ اسمبلی کے منظور کردہ غیر آئینی اور غیرشرعی بل کی مذمت کرتا ہے ۔قانون سازی پاکستان کے دستور اور قرار داد مقاصد کے تابع ہونی چاہئے ،خصوصاًایسا کوئی قانون جس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اس کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا جانا چاہئے اور اس کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہئے ۔

18سال سے کم عمر میں اسلام قبول نہ کرنے کی پابندی لگانا اور کلمہ پڑھانے والے کو تین سال تک قید کی سزا دینا نہ صرف آئین و شریعت کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی چارٹر کی بھی نفی ہے ۔اس لئے سندھ اسمبلی فوری طور پر اس قانون کو واپس لے اور آئندہ ایسی کسی قانون سازی سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا جائے ۔