پاکستان کے دریائوں کا پانی بند کیا گیا تو یہ سقوط ڈھاکہ سے بھی بڑا سانحہ ہو گا،انڈیا جنگی بنیادوں پرہمارے دریائوں پر ڈیم بنا کر ملک کو صحرا میں تبدیل کرنے کے در پے ہے ۔پانی بند ہو گیا تو زرعی اور ملکی معیشت تباہ ہو جائے گی ۔حکمران پانی پر فوری اے پی سی بلا کر انڈیا کی آبی جارحیت پر بھی اتفاق رائے پیدا کرے، پانی بند کرنے کی انڈیا کی دھمکیوں اور انڈین آبی دہشت گردی پرکسان بورڈ پاکستان ملک گیر مہم چلائیگا

جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر میاں محمد اسلم کا کسان بورڈ پاکستان کی کور کمیٹی سے خطاب

جمعہ 16 دسمبر 2016 20:06

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 دسمبر2016ء) 16دسمبر یوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر کسان بورڈ پاکستان کے سرپرست اعلی اور جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر میاں محمد اسلم نے کسان بورڈ پاکستان کی کور کمیٹی سے خطاب کیا ۔لاہور میں منعقدہ اجلاس میں مرکزی صدر کسان بورڈ پاکستان چوہدری نثار احمد،سیکرٹری جنرل ارسلاں خاں خاکوانی ،میڈیا سسیکرٹری حاجی محمد رمضان ،اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل چوہدری اختر میو اور دیگر مرکزی رہنمائوں نے شرکت کی ۔

میاں اسلم نے کہا ملکی تاریخ میں سقوط ڈھاکہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے اور انڈیا کی طرف سے ہمارے دریائوں کا پانی بند کرنا اور پانی بند کرنے کی دھمکیاںدینا تشویشناک ہے ۔اگر خدا نخوا ستہ انڈیا نے ہمارے دریائوں کا پانی بند کر دیا تو یہ سقوط ڈھاکہ سے بھی بڑا سانحہ ہو گا اور ہماری زرعی اور ملکی معیشت تباہ ہو جائے گی، انہوں نے کہاکہ پانی ہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے جسکے بغیر زندگی کا کا نظام برقرار نہیں رہ سکتا ۔

(جاری ہے)

وطن عزیز میں بڑھتا ہوا پانی اور توانائی کا بحران لمحہ فکریہ ہے ۔ زراعت تو درکنار اکثر علاقوں میں پینے کے لئے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے ۔ پانی کی کمی کی وجہ سے زیر کاشت رقبہ 22.3 ملین ہیکٹر سے کم ہوکر 21.2ملین ہیکٹررہ گیا ہے۔ دریاؤں کی دھرتی صحراؤں میں بدل رہی ہے ۔ پانی کی کمی کا آغاز 1948ء سے ہوا اور تاحال جاری ہے ۔ قومی سطح پر جتنے بھی بنیادی مسائل ہیں سب سے بڑا ایشو،،انڈیا کی آبی جارحیت ،،ہے ۔

حال ہی میں امریکی میڈیا نے بھی پانی کی کمی کو دہشت گردی سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔20 کروڑعوام کی زندگی اور موت کا یہ مسئلہ فی الفور حل کرنے کیلئے قومی پالیسی وضع کی جائے ورنہ بہت دیرہوجائے گی۔ پانی کابحران اچانک پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ یہ ایک غیر ملکی سازش ہے اسی سازش کا نتیجہ ہے کہ 1950ء میں یہاں پانی کی فی کس مقدار 5830 کیوبک میٹر تھی اب صرف ایک ہزار کیوبک میٹر ہے ۔

اور 2025 ء تک یہ صرف 550کیوبک میٹر رہ جائے گی ۔اور یہ مقدار 500 کیوبک میٹر تک پہنچ جائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ سابق حکمرانوں نے قومی اہمیت کا اہم مسئلہ آئندہ حکومتوں پر چھوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجہ میں قوم آج بڑے کربلا کی طرف گامزن ہے ۔ یہ حقیقت ریکارڈپر موجود ہے کہ 1996ء میں نہروں میں پانی کی قلت 2فیصد ریکارڈ کی گئی ۔1997ء میں یہ کمی 9 فیصد ہوگی ۔

2000ء تک یہ کمی 43% تک پہنچ گئی۔ بارشیں کم ہونے سے یہ قلت 61% پہنچ چکی ۔ پانی کی عدم دستیابی کے باعث صوبہ بلوچستان ، سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہزاروںانسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ لاکھوں مویشی اور افراد پانی کی کمی کے علاقوں سے نقل مکانی کرچکے ہیں ۔ہندوستان نے دریائے ستلج ،بیاس اور راوی کا 100%اور دریائے چناب، جہلم اور سندھ کا مجموعی طور پر 80% پانی روکنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے، ۔

۔جبکہ پاکستان میںگزشتہ سینتیس سال میںایک بھی بڑے ڈیم پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذرئیے حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ پانی کی کمی کے مسئلے اور انڈیا کی آبی دہشت گردی اور انڈیا کی پانی بند کرنے کی دھمکیوںکو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جائے ، قومی واٹر پالیسی بنانے کیلیے فوری طور پر اے پی سی بلائی جائے جس میں کسان تنظیموں اور آبی ماہرین کو بھی بلایا جائے۔

انٹرنیشنل کورٹ میں سندھ طاس معاہدوں کو چیلنج کر دیا جائے ۔میاں محمد اسلم نے کسان بورڈ کے زمہ داران کو تنظیم میں توسیع کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ کسان بورڈ کو انڈین آبی دہشت گردی کے بارے ملک گیر مہم چلانی چاہیے اور رائے عامہ ہموار کرکے حکمرانوں کو نئے ڈیم بنانے اور یہ مسئلہ عالمی اداروں میں اٹھانے پر مجبور کرنا چاہیے۔