غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر پاس کیا ہوا قانون اہم ہے ، اس کے ذریعے غیرت کے نام پر قتل کا ارتکاب کرنیوالے کے رہا ہونے کے راستے بند ہوگئے ہیں، ابھی بھی بعض امور حل طلب ہیں

پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابرکی طلباء سے گفتگو

جمعرات 15 دسمبر 2016 22:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 دسمبر2016ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ حال ہی میں غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر پاس کیا ہوا قانون اہم ہے کیونکہ اس قانون کے ذریعے غیرت کے نام پر قتل کا ارتکاب کرنے والے کے رہا ہونے کے راستے بند ہوگئے ہیں لیکن ابھی بھی کچھ امور ایسے ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔

جمعرات کوغیرت کے نام پر قتل کے قانون پر طلباء سے گفتگو کرتے ہوئیانہوں نے کہا کہ اس قانون کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر تمام خاندان بھی قاتل کو معاف کر دیں تو پھر بھی قاتل کو 25سال قید کی سزا ہوگی لیکن منفی پہلو یہ ہے کہ کسی قتل کو غیرت کے نام پر قتل کیسے ثابت کیا جائی اگر ارتکاب کرنے والا کہے کہ اس نے کسی اور وجوہات کی بناء پر قتل کیا تھا تو پھر قاتل قصاص کے قانون کے تحت بچ سکتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں تحقیقات کرنے والوں وکلاء اور ججوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے کہ وہ قاتل کی بات کو رد کرتے ہوئے ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو غیرت کے نام پر قتل کے کیس کے طور پر دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ قصاص کے قانون کا اصول زندگی کو بچانے پر مبنی ہے لیکن وہ جرم کو معاف نہیں کرتا۔ اگر قصاص کا قانون بھی لاگو کیا جائے تو وہ مقدمے کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور کسی فرد پر لگائے گئے الزامات کو عدالت میں ثابت کرنا ہوتا ہے اور کسی کو بھی قانون کے تقاضے کئے بغیر موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ہو یہ رہا ہے کہ تمام طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد ایک سمجھوتہ ہوتا ہے اور مقتول کے ورثاء معاف کر دیتے ہیں جس میں قاتل اور مقتول کی نمائندگی ایک ہی شخص کر رہا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ چند ہفتوں کے اندر ہی قاتل رہا ہو جاتا ہے اور نہ اس پر کوئی مقدمہ چلتا ہے اور نہ ہی کوئی سزا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہ ابھی یہ وقت ہے کہ قانون ساز اور تمام سیاسی پارٹیاں نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس ایگریمنٹ کی جانب سے پیش کی ہوئی سفارشات کو سنجیدگی سے دیکھیں جس میں انہوں نے قصاص اور دیت کے قانون متعدد ترامیم تجویز کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2008ء سے 2013ء تک پانچ سالوں میں 2770 خواتین کو قتل کیا گیا اور اوسطاً ہر سال 500 سے زیادہ خواتین قتل کر دی گئیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ نہ کئے جانے والے کیسز علیحدہ سے ہیں اور ان خواتین کے ساتھ غیرت کے نام پر مرد بھی قتل کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاس شدہ قانون کے تحت غیرت کے نام قتل کا قاتل پر رہائی کے راستے بند ہوگئے ہیں لیکن ابھی اس بات میں کچھ وقت لگے گا کہ معاشرہ بھی ان قاتلوں کو مکمل طور پر رد کر دے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ماحول ایسا ہے کہ جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کھلے عام یہ کہتی ہے کہ شوہر اپنی بیویوں کو مار سکتے ہیں، ریپ کے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کو رد کرتے ہیں اور بچوں کی شادیوں اور زبردستی مذہب کی تبدیلی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ جب تک ہمارا ماحول ایسا رہے گا غیرت کے نام پر قتل مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال کو ختم کرنے کے لئے ہمیں اسلامی نظریاتی کونسل کے مقصد اور کردار پر نظرثانی کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کے کمیشن کو متحکم کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر غیرت کے نام پر قتل کے مرتکب افراد کو مذہبی لابی تحفظ دیتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کے قانون کو سینیٹ کی اس کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کیا جس کی سربراہی جے یو آئی(ف) کے سینیٹر کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی کمیٹی کے بعد سینیٹ نے بھی یہ بل حتمی طور پر متفقہ طور پر منظور ہوا جس میں جے یو آئی(ف) کے تمام اراکین بشمول ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا لیکن جب یہ بل جوائنٹ سیشن میں آیا تو جے یوآئی(ف) کے اراکین نے اس کی مخالفت کی۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ پی پی او اور انسداد دہشتگردی کے قوانین بھی قاتل کو کسی قسم کی چھوٹ نہیں دیتے اس لئے غیرت کے نام پر قتل کے بل کی مخالفت کے پیچھے کسی قسم کے نظریات نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ شاید اس بل کی مخالفت کے پیچھے اس آئیڈیالوجی لابی کے خمیر میں خواتین کی مخالفت شامل ہے۔

متعلقہ عنوان :