سینیٹ ذیلی کمیٹی کی وزارت تعلیم اور ایچ ای سی کو تما م اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر ملک میںیکساں معیار تعلیم قائم کرنے کی ہدایت

یکساں معیار تعلیم کے حوالے سے کسی بل یاترمیم کی ضرورت ہو تو پارلیمنٹ اس کیلئے تیار ہے ، انجینئرنگ کی پانچ سالہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی عملی تجربے کی کمی کی وجہ سے بہت سے طالبعلموں کو ویلڈنگ تک نہیں آتی، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو ملکی ضرورت و انڈسٹری سے مطابقت رکھتا ہو، ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے ملک تعلیمی نظام میں جدید دور کے مطابق بہتری لائی جائے ، جب تک نصاب میں انڈسٹریز کے متعلقہ مضامین شامل نہیں کیے جائیں گے تب تک صنعتی شعبے کے فروغ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا، کنو ینرکمیٹی نعمان وزیر خٹک کے ریمارکس

جمعرات 15 دسمبر 2016 18:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 دسمبر2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت کی ذیلی کمیٹی نے وزارت تعلیم اور ایچ ای سی کو تما م اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر ملک میںیکساں معیار تعلیم قائم کرنے کی ہدایت کر دی، کنو ینرکمیٹی نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ اگر اس حوالے سے کوئی بل یا کسی ترمیم کی ضرورت ہو تو پارلیمنٹ اس کیلئے تیار ہے ، انجینئرنگ کی پانچ سالہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی عملی تجربے کی کمی کی وجہ سے بہت سے طالبعلموں کو ویلڈنگ تک نہیں آتی، بہتریہی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو ملکی ضرورت و انڈسٹری سے مطابقت رکھتا ہو، ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ ملک تعلیمی نظام میں جدید دور کے مطابق بہتری لائی جائے اور خاص طور پر صنعتی شعبے کی ترقی و فروغ کیلئے ضروری ہے کہ نصاب تعلیم کو انڈسٹریز کی ضرورت کے مطابق تبدیل کیا جائے، جب تک نصاب میں انڈسٹریز کے متعلقہ مضامین شامل نہیں کیے جائیں گے اور طالبعلموں کو عملی تجربے سے نہیں گزارا جائے گا ،صنعتی شعبے کے فروغ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

(جاری ہے)

ذیلی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو کنونیئر کمیٹی سینیٹر نعمان وزیر خٹک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں سینیٹر مشاہد حسین سید، سیکرٹری وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت حسیب اطہر ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی ڈاکٹر ارشد علی، کنسلٹنٹ ایچ ای سی محمود بٹ ، سیکرٹری تعلیم پنجاب و سندھ ،ایڈیشنل سیکرٹری بلوچستان ، وائس چانسلر یو ای ٹی لاہور، رجسٹرار یو ای ٹی پشاور ، وائس چانسلر یوای ٹی ٹیکسلا ،صدر چیمبر آف کامرس پشاور و راولپنڈی و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں موجودہ بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور اکیڈمیہ و انڈسٹری کے مابین تعلق کو مزید مضبوط کرنے کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔کنونیئر کمیٹی نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ ملک تعلیمی نظام میں جدید دور کے مطابق بہتری لائی جائے اور خاص طور پر صنعتی شعبے کی ترقی و فروغ کیلئے ضروری ہے کہ نصاب تعلیم کو انڈسٹریز کی ضرورت کے مطابق تبدیل کیا جائے اور جب تک نصاب میں انڈسٹریز کے متعلقہ مضامین شامل نہیں کیے جائیں گے اور طالبعلموں کو عملی تجربے سے نہیں گزارا جائے گا صنعتی شعبے کے فروغ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

اجلاس میںوفاقی وزارت تعلیم،ہایئر ایجوکیشن ،چاروں صوبوں کے صوبائی سیکرٹری تعلیم ،نسٹ ، ایئر یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف انجینئرنگ لاہور، ٹیکسلا ، پشاور کے نمائندوں کے ساتھ بہتری کیلئے تفصیلی مشاورت کے بعد تجاویز طلب کی گئیں ۔کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ انجینئرنگ کی پانچ سالہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی عملی تجربے کی کمی کی وجہ سے بہت سے طالبعلموں کو ویلڈنگ تک نہیں آتی بہتریہی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو ملکی ضرورت و انڈسٹری سے مطابقت رکھتا ہو۔

طالبعلموں کے دوسرے ، تیسرے وچوتھے سال کیلئے انٹرن شپ لازمی کرائی جائے ۔ کریڈٹ آورز لازمی کرنے سے طالبعلموں میں بھی دلچسپی بڑھتی ہے ۔ وفاقی سیکرٹری تعلیم نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ تعلیم کے شعبے میں سروسز کی فراہمی صوبوں کی ذمہ داری بن چکی ہے ۔ پرائیوٹ تعلیمی ادارے بھی خاصہ کردار ادا کررہے ہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایک تفصیلی سٹڈی کرائی جائے۔

جس میں صنعت کے حواے سے نصاب اور بہتر تعلیمی نظام کے حوالے تجاویز حاصل کی جائیں ۔ جس پر کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ ایچ ای سی اور وزارت تما م اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر اس حوالے سے اقدامات اٹھائیں ملک میںیکساں معیار تعلیم قائم کیا جائے ۔ اور اس حوالے سے کوئی بل یا کسی ترمیم کی ضرورت ہو تو پارلیمنٹ اس کیلئے تیار ہے ۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ جرمنی اور فرانس نے اس حوالے سے موثر کام کیا ہوا ہے ۔

دونوں ممالک نے طالبعلموں کے لئے پریکٹیکل تجربے پر بہت زیادہ زور دیا ہوا ہے ۔ جس پر کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ دونوں ممالک کے لائحہ عمل کا تفصیل جائزہ لے کر ملک میں عمل درآمد کیلئے تجاویز مرتب کریں۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں 80 فیصد طالبعلموں کو پریکٹیکل کرنا ضروری ہے اور ایچ ای سی کی کوشش ہے کہ نصاب مرتب کرنے والی کمیٹی میں انڈسٹری سے بھی ممبران شامل کیے جائیں ۔

کنسلٹنٹ ہائیر ایجوکیشن نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ جب سے ملک قائم ہوا ہے 11 تعلیمی پالیسیاں ترتیب دی گئی ہیں اور ہر تعلیم پالیسی میں معیار کو بہتر کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ اور ملک کی آبادی کے مطابق 7.1 ملین بچوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے تعلیمی ادارے ناکافی ہیں۔اور نہ ہی اساتذہ میسر ہیں ۔ ملک میں اس وقت 180 چھوٹی بڑی یونیورسٹیاں قائم ہیں ۔

اگلے دس سالوں میں 30 تحقیقی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی ۔ مزدور بیرون ممالک بھیجے کی بجائے پریکٹیکل لوگوں کو باہر بھیجا جائے ۔ اور جی ڈی پی کا 4 فیصد شعبہ تعلیم کیلئے مختص کرنے سے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے ۔ جس پر کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ تعلیم کے شعبے کیلئے جتنے فنڈز مختص کیے گئے ہیں اتنے فنڈز کو ہی بہتر استعمال میں لایا جائے تو بہتری آسکتی ہے ۔

تحقیق کے معاشرتی ، معاشی اثرات بھی سامنے آنے چاہیے۔ ذیلی کمیٹی کو سیکرٹری تعلیم پنجاب، سیکرٹری تعلیم سندھ، ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم بلوچستان ،وائس چانسلرز انجنیئرنگ یونیورسٹی ، ایئر یونیورسٹی ، نسٹ یونیورسٹی نے بھی نظام تعلیم کو بہتر کرنے اور نصاب میں انڈسٹری کے متعلقہ مضامین شامل کرنے کے حوالے سے تجاویز دیں ۔ جس پر کنونیئر کمیٹی کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ تمام تجاویز کا جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کریں ۔

اوراس حوالے سے زرعی یونیورسٹی ، پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے نمائندوں ودیگر متعلقہ اداروں کو بھی آئندہ اجلاس میں مشاورت و تجاویز کیلئے طلب کر لیا ۔ ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا کہ جلد ہی نسٹ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک قائم کر رہے ہیں اس حوالے سے نسٹ نے فیز یبلٹی بھی سٹڈ ی کرائی ہے ۔ اور ملک میں آٹھ سے دس سائنس ٹیکنالوجی پارکس کی ضرورت ہے ۔(ار)

متعلقہ عنوان :