خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس : صوبائی حکومت کی ناقص پالیسیوں پر اپوزیشن کی شدید تنقید

تمام وقت دھرنوں میں گزار دیا، صوبائی محاصل کے اہداف میں ناکامی، وفاقی کے ساتھ خراب تعلقات کے وجہ سے صوبے کو مشکلات میں دھکیل دیا، اپوزیشن اراکین وفاقی حکومت جان بوجھ کر بین الاقوامی اداروں کے ٹیموںاور سرمایہ کاروں کو صوبے میں داخلے کے لئے این او سی جاری نہیں کرتا ، ڈاکٹر حیدر علی کا نکتہ اعترا ض پر جواب صوبائی حکومت وفاقی سے حقوق کے لئے احتجاج کرتے ہے مگر اس صوبے اور اس ایوان م کے منتخب نمائندوں کے حقوق کو دینے کے لئے تیار نہیں، پارلیمانی لیڈر پاکستان پیپلز پارٹی

بدھ 14 دسمبر 2016 22:49

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 دسمبر2016ء) خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس کے دوران اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین نے ناقص پالیسیوں پرصوبائی حکومت کی شدیدتنقید کرتے ہوئے کہا کہ تمام وقت دھرنوں میں گزار دیا صوبائی محاصل کے اہداف میں ناکامی اور وفاقی کے ساتھ خراب تعلقات کے وجہ سے صوبے کو مشکلات میں دھکیل دیا صوبائی حکومت کے علط پالیسیوں کے وجہ سے آج صوبہ مالیء مشکلات کا شکار ہے۔

حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ اگر خیبر پختونخوا آمد کیلئے غیر ملکی ٹیموں کو وفاق اجازت نہیں دیتا مگر صوبائی اسمبلی کے کاروائی میں وزیر اعلیٰ ،وزراء،مشیر معاون خصوصی اور پارلیمانی سیکرٹریز کو کون اسمبلی میں آنے کے اجازت نہیں دیتا ،صوبائی حکومت حوداس صوبے کے منتخب نمائندوں کو حقوق دینے کے لئے تیا ر نہیں ہے، جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی مفتی فضل عفور نے کہا کہ صوبے کے حقوق کے لئے اپوزیشن نے ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیا ہے مگر حکومت نے صوبے کے حقوق کے لئے بنائی گئی فورم سی سی آئی میں کبھی اس صوبے کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی ہے چار حلقوں کے لئے ڈیڑھ سو سے زائد دن دھرنا دیں سکتا ہے مگر صوبائی حکومت نے صوبے کے حقوق کے لئے قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود نمائندوں آج تک اواز نہیں اٹھائی صوبے کے حکمران جماعت کے عدم دلچسپی کے وجہ سے آج صوبے کو مشکلات کا سامنا ہے ۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی ڈاکٹر حید ر علی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ وفاقی حکومت جان بوجھ کر بین الاقوامی اداروں کے ٹیموںاور سرمایہ کاروں کو صوبے میں داخلے کے لئے این او سی جاری نہیں کرتا ،صوبائی اسمبلی میں متفقہ قرارداد پاس ہونے کے باوجود گزشتہ روز برطانیہ سے صوبے میںدوبارہ آباد کاری اور دیگر محکموں میں کام کرنے کے لئے آنے والے ٹیم کو این او سی جار نہیں کیا جس کے وجہ سے اس ایوان کا استحقاق مجرو ح ہوگیا ،ایک طر ف وفاقی حکو مت صوبے کو این ایف سی ایوارڈ ،بجلی کے حالص منافع ،اقتصادی راہدار میں حصہ نہیں دیں رہا ہے تو دوسری جانب صوبائی حکومت کے جانب سے بین الاقوامی ادروں کو اجازت نہ دینا اس صوبے کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے ،اگر وفاقی حکومت اس صوبے کے فیڈریشن کا حصہ نہیں سمجھتااور تمام یونٹوں کو یکساں حقوق نہیں دیگا تو ایسے میں فیڈریشن چلنا مشکل ہوجائیگا جس سے ملک میں 1971 جیسے حالات پیدا ہوجائینگے،پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر محمد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت وفاقی سے حقوق کے لئے احتجاج کرتے ہے مگر اس صوبے اور اس ایوان م کے منتخب نمائندوں کے حقوق کو دینے کے لئے تیار نہیں ہے ،ملا کنڈ تھری کے رائلٹی گزشتہ دو سال سے محکمہ خزانہ جاری نہیں کرتا تو دوسری جانب صوبے کے دیگر اضلاع میں گیس رائلٹی اور تمباکو سیس کے مد میں دس فیصد فنڈز کو صوبائی حکومت نے جاری نہیں کیا ،پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر سردار نلوٹھا نے کہا کہ صوبائی حکومت نے تمام وقت دھرنوں میں گزار دیا صوبائی محاصل کے اہداف میں ناکامی اور وفاقی کے ساتھ خراب تعلقات کے وجہ سے صوبے کو مشکلات میں دھکیل دیا صوبائی حکومت کے علط پالیسیوں کے وجہ سے آج صوبہ مالیء مشکلات کا شکار ہے بحث میں جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی مفتی فضل عفور ،پاکستان پیپلز پارٹی کے محمد علی شاہ باچا ،پی ایم ایل این کے سردار نلوٹھا ،اور دیگر،ْ نے حصہ لیا ۔

دریں اثناء وقفہ سوالات کے دوران صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر کے غیر معمولی استعمال پر گرما گرم بھی بحث ہوئی ۔ جے یو ائی ف کی رکن اسمبلی مفتی فضل غفور نے ایون کا بتایا کو کہ صوبائی حکومت کی مالی خسار ے کے باوجود ہیلی کاپٹر کے غیر معمولی استعمال میں کمی نہیں لائی جا سکی جبکہ حکومت میں آنے سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سائکل پر پھرنے کی باتیں کیا کرتے تھے تاہم صوبہ میں شدید مالی بحران کے باوجود وزیراعلیٰ اور وزراء نے صوبائی خزانہ پر بوجھ ڈالتے ہوئے غیر معمولی دورے کئے جس میں پشاور سے متنی ، حیات آباد ، نوشہرہ اور لکی مروت سمیت دیگر دورے شامل ہیں ۔

انھوں نے بتایا کہ یہ کہاں کہ انصاف ہے کہ ایک طرف صوبہ مالی بحران کو شکار ہے اور دوسری طرف عوامی نمائندے شاہ خرچیوں میں مصروف ہیں ۔ تاہم سپیکر صوبائی اسمبلی نے رولنگ دیتے ہوئے مذکورہ سوال کو کمیٹی میں بھیجنے کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت اور گزشتہ دو حکومتوںکی جانب سے ہیلی کاپٹر کے غیرمعمولی استعمال کی تمام تفصیلات بھی پیش کرنے کے احکامات جاری کئے ۔واضح رہے موجودہ حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دوران ہیلی کاپٹر کی مد میں 17کروڑ روپے قومی خزانے سے خرچ کر ڈالے ہیں ۔