غیر ملکی صحافیوں نے پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی روک تھام کے قانون کو سراہا

قانون کے عملدرآمد سے غیرت کے نام پر قتل جیسے گھنائونے جرم کی روک تھام ممکن ہو سکے گی ‘ مقامی ہوٹل میں گفتگو

بدھ 14 دسمبر 2016 21:16

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 دسمبر2016ء) غیر ملکی صحافیوں نے پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی روک تھام کے قانون کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون کے عملدرآمد سے غیرت کے نام پر قتل جیسے گھنائونے جرم کی روک تھام ممکن ہو سکے گی تاہم حکومت کو چاہیے کہ غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لئے قانون میں موجودہ سقم ختم کیے جائیں۔

ان خیالات کا اظہار غیر ملکی صحافی عالیہ نازکی اور آصف فاروقی نے مقامی ہوٹل میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ فروری 2014ء میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی روک تھام کا بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا تھا جسے اکتوبر 2016ء میں متفقہ طور پر پاس کرلیا گیا ۔ تاہم ان اڑھائی سال کی مدت میں 2300خواتین غیرت کے نام پر قتل کی گئیں ، اگر اس قانون کو جلد منظور کر لیا جاتا تو ممکن تھا کہ بہت سی خواتین کی جان بچ جاتی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے پنجاب کا صوبہ پہلے نمبر پر ہے ، دوسرے نمبر پر سندھ ، تیسرے نمبر پر بلوچستان اور چوتھے نمبر پر خیبر پختونخواہ ہے ۔ ایک سٹڈی میں پتہ چلا ہے کہ کے پی کے اور قبائلی علاقوں میں قتل کی جانے والی خواتین کو خود کشی کا واقعہ رپورٹ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہاں غیرت کے نام پر قتل کا کوئی کیس سامنے نہیں آتا ۔

انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کے تمام اعداد و شمار میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر حاصل کیے گئے ہیں ۔ انہوں نے اس امر کو بھی خوش آئند قرار دیا کہ اب غیرت کے نام پر قتل کے قانون کے مطابق ورثاء کی جانب سے معاف کیے جانے کے باوجود ملزم کو 10سال قید کی سزا ملے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی اس قانون میں کچھ سقم موجود ہیں جن کے باعث ملزمان بچ سکتے ہیں ، حکومت کو چاہیے کہ غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لئے قانون میں موجودہ سقم ختم کیے جائیں۔

متعلقہ عنوان :