معاف کردہ قرضوںکی تفصیلات کی فراہمی سے انکار کا سوال ہی نہیںپیدا ہوتا،اسٹیٹ بینک

بدھ 14 دسمبر 2016 21:00

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 دسمبر2016ء) پرنٹاور الیکٹرانک میڈیا میںوقتاً فوقتاً معاف کیے جانے والے قرضوںسے متعلق بحث کے حوالے سے بعض حقائق کو ریکارڈ پر لانا ضروری ہے جس سے ان مباحث کا معیار بڑھے گا اور ناظرین/ قارئین صحیح تناظر میںمعاملات کو دیکھ سکیںگے۔اسٹیٹ بینک نے پارلیمنٹ کو معاف کردہ قرضوںکے بارے میںمعلومات کی فراہمی سے کبھی انکار نہیںکیا۔

درحقیقت یہ معلومات عوام کے لیے ہمیشہ دستیاب رہتی ہیں کیونکہ یہ بینکوںکے لیے لازمی ہے کہ اپنے مالی گوشواروںمیںہر سال پانچ لاکھ روپے اور اس سے زائد کے معاف کردہ قرضوںاور افراد کے نام ظاہر کریں۔سینیٹ ،پارلیمنٹ کا ایوان بالا کی جانب سے معلومات کا حالیہ مطالبہ یہ تھا کہ پچھلے پانچ برسوںکے دوران ایک بینک سے 5 ملین روپے یا زائد قرض لینے والے افراد کے نام اور ان کیسوںکی تعداد ظاہر کی جائے جن سے قرضے وصول کیے گئے ہیںاور معاف کیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک نے واضح طو رپر جواب دیا کہ مذکورہ مدت کے دوران متعلقہ بینک سے 5 ملین روپے یا زائد کا کوئی قرضہ معاف نہیںکیا گیا۔ مزید یہ کہ پچھلے پانچ برسوںمیںاس بینک کی جانب سے دیے گئے قرضوںکی تعداد اور وصولی کی معلومات بھی یکجا کرکے سینیٹ کو فراہم کی گئیں۔تاہم گذشتہ پانچ برسوںمیںاس بینک سے قرض لینے والوں جن کے کیسوںمیںکوئی قرض معاف نہیںکیا گیا، کے نام بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962 کی شق 33اے اور پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ1992کی شق 9 کی بنا پر ظاہر نہیںکیے گئے کیونکہ ان شقوںکی رو سے صارفین کی ذاتی معلومات منکشف نہیںکی جاسکتیں۔

بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962کی شق 33 اے جس کا عنوان فیڈلٹی اینڈ سیکریسی میںکہا گیا ہے کہ (1) ذیلی شق (4) سے مشروط، ہر بینک اور مالی ادارہ، سوائے اس کے کہ بصورت دیگر قانون کے تحت لازم ہو، بینکاروں میںرائج طور طریقوں پر عمل کرے گا اور خاص طور پر صارفین کے امور سے متعلق کوئی معلومات منکشف نہیںکرے گاماسوائے ان حالات کے جن میںقانون اور بینکاروںمیںرائج طور طریقوںکے مطابق بینک کے لیے ایسی معلومات منکشف کرنا ضروری یا موزوںہو۔

پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ1992 کی شق 9 جس کا عنوان سیکریسی آف بینکنگ ٹرانزیکشنزمیںکہا گیا ہے کہ تمام بینک اور مالی ادارے مصدقہ بینکاری لین دین کو خفیہ رکھنے پر سختی سے عمل کریںگے خواہ وہ کسی کی بھی ملکیت، کنٹرول یا انتظام میںہو۔اسٹیٹ بینک سب پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میںشفافیت قائم رکھنے پر محکم یقین رکھتا ہے اور پارلیمنٹ میںعوام کے نمائندوںکی جانب سے کسی بھی محاسبے کے لیے تیار ہے۔ مزید یہ کہ اسٹیٹ بینک وہ تمام معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار رہا ہے اور رہے گاجو قانون کے تحت مہیا کی جاسکتی ہیں۔