عبدالراشد دوستم کے گرد جنسی استحصال اور عسکریت پسند سرگرمیوں جیسے تنازعات کا گھیرا تنگ ہونے لگا

نائب صدر کے محافظوں نے جسمانی تشدد کیا ،ْ جنرل عبدالرشید دوستم نے حراست کے دوران برہنہ ہونے پر مجبور کیا ،ْ احمد ایچی احمد ایچی کی جانب سے لگائے جانے والے زیادتی کے تمام الزامات کی تحقیق کی جائے گی ،ْ صدارتی دفتر

بدھ 14 دسمبر 2016 20:32

عبدالراشد دوستم کے گرد جنسی استحصال اور عسکریت پسند سرگرمیوں جیسے ..

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 دسمبر2016ء) افغانستان کے نائب صدر جنرل عبدالراشد دوستم کے گرد جنسی استحصال اور عسکریت پسند سرگرمیوں جیسے تنازعات کا گھیرا تنگ ہونے لگا۔افغانستان کی میڈیا رپورٹ کے مطابق جنرل عبدالرشید کیخلاف یہ الزامات ان کے سیاسی حریف کی جانب سے لگائے گئے۔رپورٹ کے مطابق سیاسی رہنما احمد ایچی کا دعویٰ ہے کہ نائب صدر کے محافظوں نے ان پر جسمانی تشدد کیا ،ْ جنرل عبدالرشید دوستم نے حراست کے دوران برہنہ ہونے پر مجبور کیا۔

احمد ایچی نے یہ الزام بھی لگایا کہ نائب صدر اور ان کے محافظوں نے تمام معاملے کی ویڈیو بھی بنائی۔دوسری جانب نائب صدر جنرل عبدالراشد دوستم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا گیا ،ْ احمد ایچی پر عسکریت پسند سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔

(جاری ہے)

بیان میں کہا گیا کہ احمد ایچی کو سیکیورٹی اداروں کی جانب سے شدت پسندوں کی مدد کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا اور وہ جوزجان صوبے میں ہونے والی شدت پسند کارروائیوں میں ملوث تھے۔

دوسری جانب افغان صدر کے دفتر اے آر جی محل کا کہنا تھا کہ احمد ایچی کی جانب سے لگائے جانے والے زیادتی کے تمام الزامات کی تحقیق کی جائے گی۔امریکی صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے اس بیان کو افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے مشن( یو این اے ایم ای) نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر تحقیقات اور احتساب کی اشد ضرورت ہے۔یاد رہے کہ دو سال قبل 2014 میں افغانستان میں انتخابات کے بعد اشرف غنی نے صدر اور عبداللہ عبداللہ نے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ حلف برداری کی تقریب کے دوران جنرل عبد الرشید دوستم نائب صدر بنے۔

خیال رہے کہ رواں سال جولائی 2016 میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے نائب صدر عبد الرشید دوستم کی حامی جنبش ملیشیا پر شہریوں کو ہلاک کرنے اور لوٹ مار کا الزامات لگاتے ہوئے ان کے خلاف عدالتی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔بیان میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ جنبش ملیشیا اور نائب صدرعبدالرشید دوستم کو کبھی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ تصور نہیں کیا گیا۔یاد رہے کہ افغانستان میں 1996 سے 2001 کے دوران افغان طالبان نے اپنی حکومت امارت اسلامیہ قائم کی تھی جبکہ وہ ایک مرتبہ پھر ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے جنگ میں مصروف ہیں، اس دوران انہوں نے کئی بار عبدالرشید دوستم پر بھی قاتلانہ حملے بھی کیے تاہم وہ ہمیشہ محفوظ رہے ۔

متعلقہ عنوان :