پبلک اکائونٹس کی ذیلی کمیٹی کی پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو باقاعدگی سے تنخواہیں اداکرنے کی ہدایت، وزارت خزانہ کو خط لکھنے کا فیصلہ

وزارت خزانہ پاکستان اسٹیل کے ملازمین کیلئے تنخواہ کا بندوبست کرے ،کنو ینرکمیٹی اسٹیل ملز کے خسارے میں ملازمین کا کوئی قصور نہیں ، جن لوگوں نے اسٹیل ملز کو ڈبویا ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، بے قصور وں کو تنخواہیں نہیں دی جا رہیں، ممبران کمیٹی سٹیل ملز کی اراضی کی لیز اور ملنے والے معاوضہ کے حوالے سے تمام تر تفصیلات طلب

منگل 13 دسمبر 2016 22:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 دسمبر2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو باقاعدگی سے تنخواہیں دینے کی ہدایت کر دی۔ معاملے پر وزارت خزانہ کو پی اے سی کی طرف سے خط لکھا جائے گا ‘ کنو ینرکمیٹی عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ وزارت خزانہ پاکستان اسٹیل کے ملازمین کیلئے تنخواہ کا بندوبست کرے ‘ ممبران کمیٹی نے کہاکہ پاکستان اسٹیل ملز کے خسارے میں ملازمین کا کوئی قصور نہیں جنہوں نے اسٹیل ملز کو ڈبویا ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور جو بے قصور ہیں ان کو تنخواہیں نہیں دی جا رہیں۔

ذیلی کمیٹی نے اسٹیل ملز کی مکمل اورلیز پر دی گئی اراضی کی مد میں ملنے والے معاوضہ اور اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے تمام تر تفصیلات طلب کر لیں۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس منگل کو کنونیئر عذرا افضل پیچو کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ جس میں وزارت صنعت و پیداوار کے مالی سال 2009-10ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی جانب سے واپڈا کے ٹرانسفارمر کی مرمت ہوئی ہے جن میں سے 3فوری خراب ہو گئے جس پر واپڈا نے ان کی مرمت کے لئے کہا مگر ادارے کی جانب سے نہ تو ان ٹرانسفارمرز کی مرمت کی گئی اور نہ ہی واپس کئے گئے۔

واپڈا نے ایک اور کلیم میں ان کی قیمت 2 کروڑ 80 لاکھ روپے کاٹ لی۔ کمیٹی نے یہ معاملہ حل کرنے کی ہدایت کر دی۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ اسٹیٹ انجینئرنگ کارپوریشن کے سابق چیئرمین کو اضافی تنخواہ دی گئی جس سے ادارے کو 4 لاکھ 40 ہزار روپے کا نقصان ہوا ۔ اسٹیٹ انجینئرنگ کارپوریشن کے حکام نے بتایا کہ جنرل ظہیر کو چیئرمین تعینات کیا گیا تھا۔ اسٹبلشمنٹ نے انہیں ادارے کی شرائط کے تحت بھرتی کیا۔

کمیٹی نے یہ معاملہ نمٹا دیا۔ سٹیل ملزم حکام نے ذیلی کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 2008ء میں اسٹیل ملز3 ارب روپے منافع میں تھی جبکہ 2009 میں 26 ارب خسارے میں چلی گئی اور رکن کمیٹی رشید گوڈیل نے کہا کہ منافع بخش ادارہ ایک سال میں دیوالیہ ہو گیا۔ عارف علوی نے کہا کہ ایک سال میں اتنا خسارہ کیسے ہوا۔ اسٹیل ملز کے سی ای او نے بتایا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری 3 ماہ میں مکمل ہو جائے گی۔

اسٹیل ملز کی زمین کا بھی تخمینہ لگایا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی کل زمین 19 ہزار ایکڑ ہے۔ ایک ایکڑ زمین کی قیمت 70 لاکھ روپے ہے۔ رکن کمیٹی عارف علوی نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو بند کروا کے اب زمین بھی بیچ رہے ہیں۔ رشید گوڈیل نے کہا کہ ایک قیمتی زمین کو سستے داموں بیچ رہے ہیں میں ایک ایکڑ زمین کے لئے ایک کروڑ سے زیادہ دینے کو تیار ہوں۔

اسٹیل ملز حکام نے بتایا کہ سوئی گیس کمپنی کو 50 ایکڑ اراضی 90 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے 60 سالہ لیز پر دی ہے۔ نیشنل انڈسٹریل پارک کو 930 ایکڑ اراضی دی ہے جس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا اگر اس کے واجبات مل جائیں تو ملازمین کی تنخواہیں ادا ہو سکتی ہیں۔ ممبران کمیٹی نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کا خسارے میں کوئی کردار نہیں۔

جنہوں نے پاکستان اسٹیل ملز کو ڈ بویا ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا۔ رکن کمیٹی عارف علوی نے کہا کہ جو بے قصور ہیں ان کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ کمیٹی نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو با قاعدہ تنخواہیں دینے کی ہدایت کر دی۔ کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ وزارت خزانہ پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کیلئے تنخواہ کا بندوبست کرے۔ اسٹیل ملز حکام نے مزید بتایا کہ 2002ء میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے پر زمین انڈسٹریل پارک کو دی گئی۔

کمیٹی نے نیشنل انڈسٹریل پارک سے پیسوں کی ریکوری کی ہدایت کرتے ہوئے اسٹیل ملز کی مکمل اراضی لیز پر دی گئی اراضی ‘ لیز پر دی گئی زمین کے معاوضے سمیت دیگر تفصیلات طلب کر لیں۔ پاکستان مشین ٹول کے حکام نے بتایا کہ ادارے کو رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں نقصان سے نکال کر نفع میں لائے ہیں۔ 30 لاکھ روپے کا نفع ہوا ہے ۔ 10 سال بعد ادارہ منافع میں آیا ہے۔

ادسارے کی سیل 54 فیصد بڑھی ہے۔ 24 فیصد نقصانات کم ہوئے ہیں جبکہ 6 ارب کے پے آرڈر موجود ہیں۔ کمیٹی ممبران نے پاکستان مشین ٹول کے حکام کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ جب ادارے منافع میں جائیں گے تو اپوزیشن اداروں کی نجکاری روکنے کیلئے حکومت پر دبائو ڈال سکے گی۔ وزارت کے حکام نے بتایا کہ اینٹی ٹینک ہتھیار بنائے مگر دفاعی حکام کی جانب سے خریدے نہیں گئے۔

ہم اور ہتھیار سول اداروں کو بھی دیتے ہیں۔ کنونیئر کمیٹی نے سوال کیا کہ سول اداروں کو اینٹی ٹینک ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے جس پر حکام نے آگاہ کیا کہ ہتھیار ایف سی کو دئیے جاتے ہیں ۔ رینجرز اور ایف سی سرحد پر فرنٹ پر ہوتی ہیں جیسے بھارت اب سرحد پر چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے ایسی صورتحال میں ایف سی یہ ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ ہمارے پاس مجموعی طور پر 120 ہتھیار ہیں جن میں سے 56 کا آرڈر مل چکا ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبے کی حفاظت کیلئے ایک الگ فورس بنائی جا رہی ہے ان کے لئے ہتھیاروں کی خریداری ہم سے کی جائے گی۔ کمیٹی نے یہ معاملہ بھی نمٹا دیا۔ …(رانا+ار)

متعلقہ عنوان :