صوبے کے حکومتی معاملات پشاور کی بجائے بنی گالہ سے چلائے جا رہے ہیں، امیر حیدر ہوتی

منگل 13 دسمبر 2016 22:01

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 دسمبر2016ء) اے این پی کے صوبائی صدر اور سابق وزیرا علیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے موجودہ صوبائی حکومت کو صوبے کی پارلیمانی تاریخ کا ناکام ترین تجربہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عملی طور پر صوبے کے حکومتی معاملات پشاور کی بجائے بنی گالہ سے چلائے جا رہے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ صوبے کو بدترین انتظامی ، سیاسی اور معاشی مسائل اور بحرانوں کا سامنا ہے۔

نجی پشتو چینل کو خصوصی انٹرویو میں اُنہوں نے کہا کہ صوبے کی پارلیمانی تاریخ رہی ہے کہ جو بھی پارٹی حکومت میں رہے اگلے دور کیلئے وہ پھر سے اکثریت میں نہیں آتی تاہم 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کی متوقع شکست میں اس فیکٹر کے علاوہ متعدد دیگر اسباب اور عوامل بھی سامنے آئیں گے اور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں دھرنا سیاست ، صوبے کے وسائل اور حکومتی قوت کو تحریک انصاف کے تخت اسلام آباد کی لڑائی میں استعمال کرنا ، صوبے کو بدانتظامی سے دوچار کرنا اور بیڈ گورننس سمیت متعدد دیگر عوامل کے نتائج پی ٹی آئی کو اگلے الیکشن میں بھگتنا پڑیں گے۔

اُنہوں نے کہا کہ سال 2013 کے الیکشن میں جہاں صوبے کی یہ روایت ہماری کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن کر عوام برسراقتدار پارٹی کو دوبارہ ووٹ نہیں دیتے وہاں دہشتگردی کے مسلسل حملوں ، واقعات اور اے این پی کے گھیراؤ کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال نے ہمیں اور ہمارے اُمید واروں کو انتخابی مہم چلانے بھی نہیں دی تاہم بلدیاتی الیکشن میں نامساعد حالات کے باوجود پارٹی دوسری بڑی قوت بن کر اُبھری اور اس وقت اے این پی سرگرمیوں اور فعالیت کے لحاظ سے دیگر پارٹیوں کے مقابلے میں سب سے آگے ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ 2018 کے الیکشن کیلئے متوقع اتحادیوں کا معاملہ کافی دور ہے تاہم اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی یا پارلیمانی اتحاد کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بنی گالہ کی کھلی مداخلت اور سیاسی ادارہ جاتی اور نااہلی کے ذریعے موجودہ حکمرانوں نے صوبے کے مفادات اور حکومتی معاملات کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہے اور تبدیلی یا بہتری کے جو نام و نہاد دعوے کیے جا رہے ہیں وہ زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔

نیب اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں کے ہوتے ہوئے نام و نہاد احتساب کمیشن کے قیام کی کوئی ضرورت نہیں تھی جبکہ وزیرا علیٰ سمیت دیگر اہم لوگوں کی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی جو باتیں آئے دن سننے کو مل رہی ہیں ان پر متعلقہ اداروں کی مبینہ خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحت، تعلیم اور پولیس کے محکموں کا موجودہ حکومت نے حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے صوبے کے مالی حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کے پیسے بھی نہیں ہیں جبکہ سرکاری ملازمین اور اعلیٰ بیوروکریسی حکمرانوں کی نااہلی کے باعث نہ صرف بے چین ہیں بلکہ احتجاج پر بھی ہیں۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے صوبے کے مینڈیٹ اور حکومت کو دھرنا سیاست کے ذریعے تخت پنجاب ، تخت اسلام آباد پر قبضے کیلئے جس بے رحمی کیساتھ استعمال کیا وقت آنے پر عوام اس کا احتساب کریں گے۔ اور صوبے کیساتھ کی گئی زیادتی کا ووٹ کے ذریعے حساب لیا جائیگا۔ اُنہوں نے کہا کہ عمران خان یو ٹرن لینے کے ماہر ہیں پہلے وہ پانامہ لیکس پر کمیشن کی بات کر رہے تھے اب کمیشن کی مخالفت پر اُتر آئے ہیں اور ان کے تیور بتا رہے ہیں کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا تو وہ حسب عادت اس کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے۔

کیونکہ وہ ملکی اور سیاسی معاملات کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق دیکھنا اور چلانا چاہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ساکھ اور مقبولیت کھوتے جا رہے ہیں۔