خواتین کی جیلوں میں حالت زار ازخود نوٹس کیس کی سماعت

کچھ ادارے اور لوگ ملک میں کام کر رہے ہیں،چیف جسٹس وفاقی محتسب کی رپورٹس پر صوبائی حکومتوں سے تجاویز طلب

منگل 13 دسمبر 2016 19:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 دسمبر2016ء) سپریم کورٹ میں خواتین کی جیلوں میں حالت زار سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی ۔ کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے وفاقی محتسب کی کارکردگی کو سراہا ۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کچھ ادارے اور لوگ ہیں جو ملک میں کام کر رہے ہیں آج کا کیس وفاقی محتسب کی کارکردگی کو سراہنے کے لئے مقرر کیا ۔

تھانوں اور جیلوں کی حالت زار پر وفاقی محتسب نے دو رپورٹس عدالت میں جمع کرائی ہیں ۔ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ سب بہتری کے لئے کام کریں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہونے سے بہتری آئے گی ۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ جیلوں کی حالت کا جائزہ لیں ۔ انتظامیہ جیل کی حالت میں بہتری لانے میں ناکام ہوئی ہے ہم نے ازخود نوٹس معاملات کو بہتر کرنے کے لئے لیا ہے ۔

درخواست گزار کے وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ قیدی اپنے مقدمات سے لاعلم ہوتے ہیں ۔ دماغی مریضوں کو جیل میں رکھنا ظلم ہے ۔ عدالت نے وفاقی محتسب کی رپورٹس پر تمام صوبائی حکومتوں سے تجاویز طلب کر لیں ۔ رپورٹس کے مطابق جیلوں میں خواتین کی حالت زار سے متعلق وفاقی محتسب کی تیار کردی سفارشات یہ ہیں کہ جیلوں کی نگرانی کے لئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں کمیٹیاں تشکیل دی جائیں صوبائی محتسب کو نگران کمیٹی کو مانیٹر کرنے کی اجازت ہونی چاہئے ۔

صوبائی حکومتیں تمام ضلعوں میں نئی جیلیں تعمیر کریں ہر جیل میں خواتین اور بچوں کے لئے علیحدہ عمارت تعمیر کی جائے ۔ نشے کے عادی اور ذہنی مریضوں کو علیحدہ کلینک کو منتقل کیا جائے قیدیوں کے عزیز و اقارب کو طے شدہ تاریخوں میں ملاقات کا حق دیا جائے ۔ قیدیوں میں عدالت میں پیشی کے لئے ٹرانسپورٹ نظام میں بہتری لائی جائے اور ان کو فری تعلیم اور ہنر سکھایا جائے ۔

وفاقی محتسب کی جانب سے پیش کردہ رپورٹس میں پولیس نظام میں بہتری کے لئے کی گئی سفارشات یہ ہیں کہ وزارت داخلہ کے زیر انتظام ڈسٹرکٹ اور سیشن ججز پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور ہر آنے والی درخواست پر مقدمہ ضرور درج کیا جائے ۔ گرفتاری سے پہلے سینئر پولیس آفیسر سے اجازت ضر ور لی جائے اختیارات کے ناجائز استعمال پر ایس ایچ او کا احتساب ہونا چاہئے ۔ (جاوید)

متعلقہ عنوان :