وزیر اعظم نوازشریف ہمسائیہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، تسنیم اسلم

منگل 13 دسمبر 2016 15:23

وزیر اعظم نوازشریف ہمسائیہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، تسنیم اسلم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 دسمبر2016ء) ایڈیشنل سیکریٹری خا رجہ تسنیم اسلم نے کہاکہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے،وزیر اعظم ہمسائیہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، بھارت کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں میں دن بدن اضافہ اور بھارتی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات خطے کے امن کے لئے خطرہ بن گئے ہیں،بھارت ایٹمی آبدوزیں تیار کر رہا ہے اوربحیرہ عرب کو نیوکلیئرائز کر دیا گیا ہے،بھارت ایل او سی ورکنگ باونڈری پر مسلسل جارحیت کر رہا ہے،ایسی صورتحال میں پاکستان کے پاس اپنے دفاع کے لئے تیاری کے علاوہ کوئی آپشن نہیں،ہم خطے میں امن و استحکام کے لئے کام کرنے کے لیے تیار ہیں،پاکستان ایٹمی عدم پھیلاو کا حامی اور قوانین کا پابند ملک ہے، پاک بھارت تناو کے باوجود پاکستان کی ہارٹ اف ایشیا میں موجودگی سے افغانستان میں امن کے قیام کے ہمارے عزم کی تجدید ہوئی، بھارت کی جانب سے ہارٹ آف ایشیا کو ہائی جیک کرنے کی کوششیں ناکام ہوئیں،بھارت نے پاکستان کے امن کی تمام تجاویز کا منفی جواب دیا، بھارت کو 2008 میں این ایس جی کی جانب سے خصوصی چھو ٹ دینے سے این ایس جی نے خطے میں مستقل امن کے قیام کا موقع ضائع کیا۔

(جاری ہے)

منگل کو جنوبی ایشیا میں دفاع و استحکام سے متعلق سیمینارسے ایڈیشنل سیکریٹری خا رجہ تسنیم اسلم نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دو ایٹمی مسلح ہمسایوں کے درمیان توازن کا قیام ضروری ہے۔تاہم روایتی ہتھیاروں کا ذخیرہ, بحیرہ عرب کی نیوکلیر ائزیشن اور جارحانہ ڈاکٹرایں خطے میں امن و سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔پاکستان نے آزادی کے بعد سے بھارت سے اچھے تعلقات چاہے۔

بھارت نے 1974 میں ایٹمی دھماکے کر کہ ایٹمی دوڑ کا آغاز کیا۔اگر بھارت پاکستانی تجاویزکا مثبت جواب دیتا تو دونوں ممالک میں مستقل امن قایم ہو جاتا۔ پاکستان خطے میں جوہری اور روائتی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں۔ ہم آئی اے ای کے اصولوں کے مطابق اپنے دفاع کے لیے کم از کم دفاعی قوت رکھتے ہیںاین ایس جی کے حوالے سے بھارت کو ترجیح دینا خطے میں عدم استحکام کا باعث بنے گا۔

اب این ایس جی ممالک کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب بھارت کو ترجیح دینے سے این ایس جی کی ساکھ متاثر ہوگی۔ پاکستان تکنیکی اور قانونی اعتبار سے این ایس جی کی رکنیت کا مستحق ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہے۔ بھارت کے ملکی فیزایل میٹریل کے زرایع میں اضافہ کو کھلی چھوٹ دی گئی۔این ایس جی کا بلا امتیاز کردار ہونا چاہیے۔

ہم توانائی پلانٹس کے گزشتہ بیالیس برس سے تمام حفاظتی و سلامتی سے متعلق سٹینڈرڈز کو پورا کر رہے ہیں۔ہارٹ آف ایشیا پاک بھارت سے متعلق نہیں بلکہ افغانستان سے متعلق تھی۔سی پیک پاکستان اور چین کا منصوبہ ہے۔ہم سی پیک کو خطے کے لیے گیم چینجر کے طور پر لیتے ہیں۔اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ہیں نہ ہی کوئی بیک ڈور رابطے۔ہمیں تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مزاکرات کی ضرورت ہے۔

بھارت میں شائنگ انڈیا کے دعووں کے باوجود خط غربت سے نیچے رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔خطے سے غربت کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانا ہو گا۔بھارت ہم پر غیر ریاستی دہشت گردی کا الزام تو لگاتا ہے تاہم ہم بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ہمارے ہاس بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے ثبوت موجود ہیں۔بھارت را کے زریعہ پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔

بدقسمتی سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات ماضی کی جانب رواں ہیں۔بھارت کی جانب سے جارحانہ بیانات اور سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے اشتعال انگیز ہیں۔ہارٹ آف ایشیا پاک بھارت سے متعلق نہیں بلکہ افغانستان سے متعلق تھی۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان ہارٹ آف ایشیا کا حصہ ہے۔ پاکستان کی شرکت پاکستان کی سنجیدگی کی عکاس ہے۔بھارت کی جانب سے پاکستانی مشیر خارجہ کی حوصلہ شکنی اور ہارٹ آف ایشیا میں شرکت میں روڑے اٹکائے گیے۔

یورپ میں بھی صدیوں تک علاقائی تنازعات موجود تھے تاہم انہوں نے انہیں پس پشت ڈال کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ہم گریٹ گیم سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تاہم اس کیلئیہمیں علاقائی منسلکی کو بہت فعال بنانا ہو گا۔ سی پیک پاکستان اور چین کا منصوبہ ہے۔ہم سی پیک کو خطے کے لیے گیم چینجر کے طور پر لیتے ہیں۔ہماری خارجہ پالیسی تغیراتی ہے جو کہ حالات کے مطابق چلتی ہے۔خارجہ پالیسی ریاستی و ملکی مفادات کے تابع ہوتی ہے جس میں تمام حالات کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے