وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام بین الاقوامی سیرت النبیؐ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا، ایک دوسرے کے مذہبی قائدین اورعبادت گاہوں کا احترام ملحوظ خاطر کھاجائے ‘ مذہبی قائدین ایسے اشتعال انگیز بیانات و تحریروںسے احتراز کریں جن سے دوسروںکی دل آزاری ہو،کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کا متن

پیر 12 دسمبر 2016 13:20

لاہور۔12 دسمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 دسمبر2016ء) وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام بین الاقوامی سیرت النبیؐ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا،وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی پیر سید امین الحسنات نے کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ پیش کیا، اس موقع پر وزیر اعظم محمد نواز شریف‘ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف‘ صدر مذہبی امور ترکی ڈاکٹر مہمت گورمیز‘ نائب وزیر مذہبی امور مالدیپ علی وحید سمیت اراکین سینیٹ ‘قو می و صوبائی اسمبلی‘ وفاقی و صوبائی وزراء‘ علماء کرام و مشائخ عظام اور تمام مذاہب کے سکالرز موجود تھے، اعلامیہ میں کہا گیا کہ ایک دوسرے کے مذہبی قائدین اورعبادت گاہوں کا احترام ملحوظ خاطر کھاجائے نیز مذہبی قائدین ایسے اشتعال انگیز بیانات اور تحریروںسے احتراز کریں جن سے دوسروںکی دل آزاری ہو‘ مذہبی تنازعات اور اختلافات کو باہمی مشوروں‘ افہام و تفہیم اور سنجیدہ مکالمے کے اصولوں کی روشنی میںطے کیا جائے‘ اعلامیہ میں کہا گیا کہ تمام مذہبی اکابرین کے لئے لازمی تربیتی پروگرام تشکیل دیئے جائیں جس کے ذریعے انہیں دیگر مذاہب کی بنیادی معلومات حاصل ہوں‘ اعلامیہ میں کہا گیا کہ تمام مذاہب کے اکابرین اور سکالرز کو مذہبی‘ معاشرتی اور ثقافتی ہم آہنگی کے لئے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں مثلاً مندروں‘ مدارس‘ مساجد‘ گرجا گھروں اور گوردواروں کے مسلسل دورے کرنے چاہئیں‘ اعلامیہ میں کہا گیا کہ مدارس سکول‘ کالج اور جامعات میں بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے پرامن معاشرے کے قیام کیلئے تمام مذاہب کی کتابوں سے ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جو بقائے باہمی کی دعوت دے اور حکومت کے ذریعے اسکی تعلیم کا بندوبست کیا جائے‘ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اقلیت کا لفظ ایک ایسے امتیازی تاثر کا حامل ہے جس سے کسی کے مقام کے کمتر ہونے کا پہلو ابھرتا ہے، اس لفظ کی بجائے تمام مذاہب کیلئے کوئی موزوں متبادل لفظ ہوناچاہئے‘ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دور حاضر میں میڈیا کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لہٰذا مناسب قانون سازی کے ذریعے پرنٹ میڈیا‘ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیاکو بین المذاہب ہم آہنگی کی مہم چلانے پر آمادہ کیا جائے نیز ان میں موجود نفرت انگیز مواد جس میں کسی بھی مذہب‘ مذہبی جماعت یا برادری کی مسخ شدہ صورت پیش کی ہو اس نفرت انگیز مواد کو ضبط اور تلف کیا جائے‘ اعلامیہ میں کہا گیا کہ تمام مذاہب کی تعلیمات‘ مذہبی رواداری‘ عدم تشدد‘ احترام انسانیت اور انسانی جان کی حرمت کا درس دیتی ہیں لہٰذا اہل مذاہب کو ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے‘ اعلامیہ میں کہا گیا کہ میثاق مدینہ اور قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کو دستور ساز کمیٹی کے ممبران سے کی گئی تقریر میں بین المذاہب ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے روشن اصولوں کو نافذ کیا جائے تاکہ پاکستان میں پائے جانیوالے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے،واضح رہے کہ دو روزہ بین الاقوامی سیرت النبیؐ کانفرنس کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ اور پرچار ہے‘ کانفرنس کے تحت پینل ڈسکشن کا انعقاد ہوا جس میں 4 پینل ترتیب دیئے گئے ہر پینل میں 20 سے زائد سکالرز جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے نمائندوں پر مشتمل تھے‘ نے مذہبی رواداری‘ ہم آہنگی اور برداشت کے قیام کے حوالے سے مختلف مذاہب میں پائے جانیوالے مشترکات کو تلاش کیا جو تمام مذاہب کیلئے قابل قبول ہوں، کانفرنس میں 11 ممالک کے مندوبین شامل تھے۔

متعلقہ عنوان :