برطانوی وزیراعظم کا متنازعہ بیان،ایران میں برطانیہ کے سفیرکی طلبی، مداخلت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا گیا

اتوار 11 دسمبر 2016 17:20

تہران(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 دسمبر2016ء) ایران نے گزشتہ روز برطانوی سفیر کو طلب کرکے وزیراعظم تھریسا مے کی جانب سے مداخلت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے،جنہوں نے خلیجی رہنماؤں کو بتایا کہ وہ خطے میں ملک کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے میں ان کی مدد کریں گی۔وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام غاسمی کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری ٹیلی ویژن کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ نیکولس ہوپٹن کو ایک سینئر ایرانی سفارتکار کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ تھریسامے کی جانب سے خلیجی ممالک کے اجلاس کے دوران دیا گیا غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیز اور اختلاف رائے پر مبنی بیان ناقابل قبول ہے اور ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔

توقع کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس قسم کے ناقابل قبول بیانات نہیں دئیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز بحرین میں چھ رکنی خلیج تعاون کونسل(جی سی سی) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مے نے خطے میں روایتی حریفوں کیلئے برطانیہ کی حمایت کا ازسر نو اعادہ کیا اور کہا کہ ان کا ملک ایران کے خطے میں جارحانہ اقدامات کے خلاف ان کی مدد کرے گا۔اکثریتی سنی عرب خلیجی بادشاہتیں اور شیعہ ایران سخت علاقائی حریف ہیں اور شام اور یمن میں جنگوں سمیت کئی معاملات پر ان کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔

ایک مشترکہ بیان میں جی سی سی ممالک اور برطانیہ نے سٹرٹیجک شراکت داری پر اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایران کی خطے میں عدم استحکام کی سرگرمیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ملکر کام کریں گے۔ غاصمی کا کہنا ہے کہ مے کا جی سی سی اجلاس میں دیا گیا بیان تعلقات کو معمول پر لانے میں ہونے والی پیشرفت کے خلاف ہے اور اس سے باہمی تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ جبکہ ایران کی علاقائی پالیسیاں امن اور استحکام پر مبنی ہیں،یہ بدقسمتی اور حیرانکن ہے کہ برطانوی حکام اور وزیراعظم یہ بات سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ خطے میں بعض ممالک دہشتگردی کی حمایت کی واضح پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔