منڈی بہائوالدین :بلدیاتی انتخابات کا طبل جنگ بج گیا

ڈسٹرکٹ چیئرمین کے دو بڑے امیدوار سامنے،مسلم لیگ( ن) کے کنگ آف دی بار بوسال برادران اور عوام کے خادم اعلیٰ حاجی برادران کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا

اتوار 11 دسمبر 2016 13:20

منڈی بہاوالدین(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 دسمبر2016ء)منڈی بہاوالدین کی سیاسی فضا ایک بار پھر شدید گرم ہو چکی ہے۔ڈسٹرکٹ چئیرمین کے دو بڑے امیدوار سامنے آچکے ہیں۔مسلم لیگ ن کی طرف سے کنگ آف دی بار کے نام سے جانے والے بوسال برادران اور عوامی خدمت کی پہچان رکھنے والے حاجی برادران کے درمیان ضلع چئیرمین شپ کی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔

تفصیلات کے مطابق بوسال برادران کی طرف سے چوہدری غلام حسین بوسال ن لیگ کے امیدوار جبکہ حاجی برادران اور متحدہ اپوزیشن کے کسان اتحاد گروپ کی طرف سے ایک بہت بڑے الائینس کی شکل میں ایک بڑا سیاسی دھماکہ کرتے ہوئے غیر متوقع طور پر منتخب چئیرمینوں کی کثیر تعداد کے ہمراہ ایک بہت بڑے کنونشن میں متفقہ طور پر امیدوار برائے چئیرمین کے طور پرحاجی امتیاز احمد چوہدری کو میدان میں اتارا جا چکا ہے۔

(جاری ہے)

کچھ دن پہلے تک بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ ن لیگ کے امیدوار چوہدری غلام حسین بوسال کو 104 میں سے 60 سے اوپر امیدواروں کی حمائیت حاصل ہے جن کا ذکر کء اخبارات میں بیانات کی شکل میں بوسال برادران کی طرف سے کیا جارہا تھا۔جس بنا پر وہ بہت آسانی سے چئیرمین منتخب ہو جائیں گے۔لیکن مخصوص نشستوں پر ہونے والے انتخابات نے بوسال برادران کی کشتی میں سوراخ کر دیا۔

ایک کم شہرت یافتہ امیدوار چوہدری عارف گوندل نے بوسال گروپ کے حمائیت یافتہ امیدوار منور گوندل کو بری طرح شکست فاش دے ڈالی۔۔بوسال برادران کا ناقابل شکست تصور کئیے جانے کا تاثر شدت سے مجروع ہو کر رہ گیا۔39/41 کے آکڑے سے ایک غیر معروف امیدوار سے ہارنے نے ثابت کیا کہ 60 سے اوپر چئیرمینوں کی حمائیت کا دعو'ی محض دعو'ی قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف حاجی امتیاز چوہدری کی حمائیت میں پیپلز پارٹی کی قدآور شخصیات ہیں جن کا اپنا بہت بڑا سیاسی حلقہ اثر ہے جن کے ساتھ اس وقت چئیرمینوں کی کافی بڑی تعداد موجود ہے جو ہر طرح سے الیکشن پر اپنا اثر چھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور عوامی خدمت کی کئی نئی نئی تاریخیں رقم کرنے والے کسی اقتدار کے بغیر بھی عوام کے مسائل حل کرنے کی شہرت رکھنے والے حاجی برادران عجیب و غریب اور ناقابل یقین کامیاب سیاسی بیک گراونڈ رکھتے ہیں۔

ماضی میں بھی حکومتی اور برسر اقتدار پارٹیوں کو کء بار غیر متوقع طور پر بری طرح شکست سے دوچار کر چکے ہیں۔ق لیگ کے دور حکومت میں بظاہر20فیصد حمایت رکھنے والے حاجی برادران نے الیکشن کو اس ڈھنگ سے لڑا کہ بالکل ہی مقابلے سے آوٹ نظر آنے والوں نے حکومت کو میلوں پیچھے چھوڑ کر80فیصد ووٹ لے کر پورے پاکستان کو انگلیاں دانتوں میں دبانے پر مجبور کر دیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

2003 کے جنرل الیکشنز میں چوہدری اعجاز نے ق لیگ کے پلیٹ فارم سے بہت بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی۔2008 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی ایک عوامی سیلاب بن کر ابھری جو ہر پارٹی اور بڑے بڑے سیاسی برجوں کو روندتی ہوئی گزر گئی۔پورے پاکستان میں پیپلز پارٹی کے امیدوار لاکھوں کی لیڈ سے کامیاب ہوتے چلے گئے۔لیکن حاجی برادران کے امیدوار نے ثابت کیا کہ حلقہ این۔

اے 109 کے 90000 نوے ہزار ووٹرز کسی پارٹی کو نہیں جانتے صرف حاجی برادران کے ووٹرز اور چاہنے والے ہیں۔چوہدری اعجاز نے کم و بیش نوے ہزار ووٹ لے کر تخت و تاج کو جتلا دیا کہ منڈی بہاوالدین کیعوام کے دلوں پر حاجی برادران کا راج ہے۔۔ کم و بیش صرف 1700 ووٹوں سے چوہدری اعجاز کو شکست ہوئی۔2013 کے الیکشن میں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن کی تیاری کرنے والے حاجی برادران کو ن لیگ نے ٹکٹ نہ دے کر اپنے پاوں پر کلہاڑی مار لی۔

کھمبے کے ساتھ ٹکٹ باندھ کر جیتنے کے دعوے کرنے والی ن لیگ کو آزاد حیثیت سے کم و بیش 13000 ووٹوں کے بڑے مارجن سے شکست دے کر تخت رائے ونڈ کا سارا غرور خاک میں ملا دیا۔حالیہ بلدیاتی الیکشن میں بھی کچھ دن پہلے افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ ن لیگ کے امیدوار غلام حسین بوسال شاید بلا مقابلہ ضلعی چئیرمین منتخب ہو جائیں گے۔لیکن ایک بار پھر ایک دھماکے دار اجلاس میں چئیرمینوں کی کثیر تعداد کے ہمراہ حاجی امتیاز چوہدری نے الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے ن لیگ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

ایم۔این۔اے چوہدری ناصر اقبال بوسال کے ترقیاتی کام بلاشبہ قابل تعریف ہیں لیکن عوامی رائے یہ گردش کرتی نظر آتی ہے کہ سڑکیں بنانے کے علاوہ عوامی مسائل کو پس پشت ڈالنے اور کافی بڑے علاقوں کو یکسر نظر انداز کرنے کی وجہ سے منڈی بہاوالدین میں بوسال برادران کا امیج تیزی سے متاثر بھی ہوا ہے۔چوہدری ناصر بوسال این۔اے 109 کی بڑی اور قدآور شخصیت ہیں لیکن کئی دیہائیوں سے 2 جماعتوں یا دو دھڑوں میں بٹے ہوئے وہ لوگ جو برس ہا برس سے سیاسی وابستگیوں اور پارٹی بازی کی وجہ سے لڑتے جھگڑتے چلے آرہے ہیں ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا شاید بوسال برادران کے بس میں نہ ہو۔

بظاہر مضبوط پوزیشن میں نظر آنے والے ن لیگ کے امیدوار چوہدری غلام حسین بوسال کو یہ دھڑا بندی خاصی متاثر کر سکتی ہے۔اور غیر متوقع نتائج دینے والے حاجی برادران کو اندرون خانہ ملنے والی کافی بڑی سپورٹ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔نتائج کچھ بھی ہوں ضلع کا تاج چاہے جس کے سر پر بھی سجے سیاستدانوں کو اب روائیتی سیاست طرق کرنا ہو گی۔سیاست کو اس ڈھب پر لانا ہوگا جہاں کسی غریب یا سفید پوش انسان کو ان وڈیروں اور جاگیرداروں سے ملاقات کیلیئے پورا پورا دن ان کی دہلیز کے باہر انتظار نہ کرنا پڑے۔

جہاں ترجیحات سڑکیں بنانے سے آگے جا کر تعلیم۔صحت۔کرپشن کے خاتمے۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی۔رشوت ستانی سے چھٹکارے سے آگے جاتی دکھائی دیں۔جہاں عوام خود کو محفوظ سمجھ سکیں۔ جہاں ان کی اولادوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان نہ کھڑے ہوں۔جہاں عوام اپنے ووٹ کا حق حاصل کر سکیں۔