نظام مصطفیٰؐ کا نفاذ کوئی چوائس نہیں بلکہ یہ ایمان کا حصہ ہے‘ سینیٹرسراج الحق

وزیر اعظم کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی غربت اور تنگدستی پر ترس آتا ہے

ہفتہ 10 دسمبر 2016 22:20

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 دسمبر2016ء)امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ نظام مصطفیٰؐ کا نفاذ کوئی چوائس نہیں بلکہ یہ ایمان کا حصہ ہے ، اسلامی ملک کی ایک اسمبلی نے مسلمان ہونے پر عمر کی قید لگائی اور یہ کہ مسلمان ہونے والے کا 21 دن تک نفسیاتی علاج کرایا جائے گا اور جس نے اسے کلمہ پڑھایا اسے تین سال قید کیا جائے گا یہ مسلمانوں کے خلاف سرکاری دہشتگردی ہے ، حکمران بتائیں کیا یہ کوئی مسلمان اسمبلی پاس کر سکتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میں ہونے والی عظیم الشان سیرت الانبیاء ؐ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوںنے کہا کہ یہ قانون آئین ، شریعت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف اور بنیادی انسانی کی نفی ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ سے عشق و محبت کا تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کو مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنائیں اور نظام مصطفیﷺ کے نفاذ کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں ۔

(جاری ہے)

پاکستان عالم اسلام کا دھڑکتا دل ہے جس کو کرپٹ حکمرانوں سے پاک کرنا اور دیانتدار قیادت کو برسر اقتدار لانا ایک دینی اور آئینی فریضہ ہے ۔ جوڈیشل کمیشن کامطالبہ صرف جماعت اسلامی کا نہیں متحدہ اپوزیشن کا تھا ،اپوزیشن جماعتوں نے کمیشن کے قیام اور پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے جو مشترکہ ٹی او آرز دیئے تھے ہم اسی بنیاد پر کمیشن کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں ۔

مسئلہ محض کمیشن کے قیام کا نہیں بلکہ احتساب کے فول پروف نظام کا ہے تاکہ دوچار ہزار کی چوری کرنے والوں کی طرح اربو ں کھربوں لوٹنے والے بھی عدالت کے کٹہر ے میں کھڑے ہوں اور کوئی اپنے اعلیٰ منصب اور اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرسکے۔قوم احتساب اور حساب کتا ب چاہتی ہے جس میں کسی کو استثناء نہیں ۔قوم چاہتی ہے کہ عدالتیں بڑے چوروں کو پہلے پکڑیں مگر ہوتا اس کے بالکل بر عکس ہے ۔

چھوٹی مچھلیاں دھر لی جاتی ہیں اور مگر مچھوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جب وزیراعظم کے وکیل نے تسلیم کیاہے کہ ان کے پاس ان کی دولت کا کوئی ریکارڈ نہیں تو کرپشن کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے ۔ جس دولت کا ریکارڈ موجود نہ ہو ، اسے سرکاری قبضہ میں لے لینا چاہیے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اپوزیشن میں اب بھی کوئی اختلاف نہیں ،ہم ایک پیج پر ہیں ،سب احتساب چاہتے ہیں ۔

ہم لٹیروں اور کرپٹ ٹولے کے خلاف فیصلہ چاہتے ہیں ،سپریم کورٹ کمیشن بنائے اور اپوزیشن جماعتوں کے ٹی او آرز کے مطابق تحقیقات ہوجائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے ،وزیر اعظم کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی غربت اور تنگدستی پر ترس آتا ہے اور لوگ وزیر اعظم کو زکواة کا مستحق سمجھنے لگتے ہیں ۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ عدالت کا کام فریقین کے دلائل سن کر فیصلہ دینا ہے لوگوں سے ان کی مرضی پوچھنا نہیں،چور چوری نہیں مانتا ،لٹیرے نہیںچاہتے کہ کسی کا احتساب ہو،وہ چاہتے ہیں کہ چار دن سڑکوں اور چوکوں چوراہوں میں غل غپاڑہ ہو اور ملکی تاریخ کا یہ اہم ترین مقدمہ گرد و غبارمیں چھپا دیاجائے ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 70سال میں حکمرانوں کے خلاف بڑے بڑے احتجاج ،دھرنے اور مظاہرے ہوئے جن کا آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ،آج بھی وہی لوگ اقتدار کے ایوانوں اور سرکار کی کرسیوں پر براجمان ہیں۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت میں جانے والے چوکیدار یا وزیر اعظم سے ایک جیسا سلوک ہو اور عدالت کی نظر میں کوئی چھوٹا بڑا نہ ہو ،مجرموں کو وی آئی پی کا درجہ دینے سے انصاف کا قتل عام ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جو عدالت یوسف رضا گیلانی کو سزا دے سکتی ہے وہ نواز شریف کو کیوں نہیں دے سکتی،اگر عدالتوں نے فیصلے نہیں کرنے تو وہ خود بتائیں کہ انہیں کرنا کیا ہے اور پھر جو عدالتیں عوام کو انصاف نہ دے سکیں بہتر ہے انہیں تالہ لگا دیا جائے ۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اگر پانچ ،چھ ہزار بڑے چوروں کو جیلوں میں بند کردیا جائے ، ان کی دولت بحق سرکار ضبط کر لی جائے اور ان کے پاسپورٹ چھین کر انہیں باہر بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے تو ایک ہفتہ کے اندر نہ صرف جرائم رک جائیں گے بلکہ قوم میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں نظام مصطفی ﷺ کی جدوجہد کررہے ہیں اور آپ ﷺ سے عشق و محبت اور عقیدت کے اظہار کا یہی بہترین طریقہ ہیذ ۔امت کا یہ فرض ہے کہ وہ باہمی اختلافات سے نکل کر غلبہ دین کیلئے متحد ہوجائے ،انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ پر درود و سلام کی محافل کا انعقاد باعث خیر و برکت ہے مگر امت کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ آپ ﷺ کے لائے ہوئے نظام کو غالب کرنے کی جدوجہد کی جائے ۔