تمام عدالتیں آزاد ہیں ،کسی کو خوش کرنے یامیڈیا ہائپ کی وجہ سے دباؤمیں آکرفیصلے نہیں کرسکتے ،ْچیف جسٹس

کسی بھی ادارے کو اپنی مقررہ حد سے تجاوز کرنے اور دوسرے ادارے کی حدود میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ،ْ انور ظہیر جمالی بلیک مارکیٹنگ ،ْرشوت ستانی اور بدعنوانی سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا ناگزیر ہے ،ْ کوئی ادارہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں ،ناکامیوںکا جائزہ لیکر در پیش مشکلات سے بہتر انداز میں نبردآزما ہو سکتا ہے ،ْعدلیہ قانون یا آئین کی کسی شق سے متصادم یا بنیادی حقوق پر قدغن کالعدم قرار دے سکتی ہے ،ْ جب تک بار عدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑی نہ ہو اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں بھر پور انداز میں ادا نہ کرے اس وقت تک فوری اور سستے انصاف کی فراہمی نا ممکن ہے ،ْدیگر ادارے ناکام ہو جائیں تو عدلیہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،ْ مہذب قوم بننے اور ترقی کیلئے معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا ،ْ لاہور ہائیکورٹ کی 150 سال کی تکمیلی کانفرنس سے خطاب جج کا کام محض مقدمات کونمٹانا نہیں ،کیس سے مکمل انصاف کرناچاہیے‘نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار ہماری سوچ اجتماعی ہونی چاہیے، فرد کی اہمیت ضروری ہے لیکن اتنی نہیں اداروں کو پس پشت ڈال دیا جائے‘جسٹس سیدمنصور علی شاہ

ہفتہ 10 دسمبر 2016 18:56

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 دسمبر2016ء) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے واضح کیا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے لے کر تمام ضلعی عدالتیں خود مختار اور آزاد ہیں ،ْکسی کو خوش کرنے یامیڈیا ہائپ کی وجہ سے دباؤمیں آکرفیصلے نہیں کرسکتے ،ْکسی بھی ادارے کو اپنی مقررہ حد سے تجاوز کرنے اور دوسرے ادارے کی حدود میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ،ْبلیک مارکیٹنگ ،ْرشوت ستانی اور بدعنوانی سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا ناگزیر ہے ،ْ کوئی بھی ادارہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور ناکامیوںکا جائزہ لے کر در پیش مشکلات سے بہتر انداز میں نبردآزما ہو سکتا ہے ،ْعدلیہ قانون یا آئین کی کسی شق سے متصادم یا بنیادی حقوق پر قدغن کالعدم قرار دے سکتی ہے ،ْ جب تک بار عدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑی نہ ہو اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں بھر پور انداز میں ادا نہ کرے اس وقت تک فوری اور سستے انصاف کی فراہمی نا ممکن ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات کے سلسلہ میں ایوان اقبال لاہور میں منعقدہ جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب میں نامزد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار، سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج صاحبان مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ، مسٹر جسٹس میر ہانی مسلم، مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال، مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن، مسٹر جسٹس منظور احمد ملک،چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ،لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار اور دیگر فاضل جج صاحبان، چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر، چیف جسٹس گلگت بلتستان ایپیلیٹ کورٹ، چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس شیخ نجم الحسن، بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس یحییٰ خان آفریدی، سابق صدر پاکستان جسٹس (ر) رفیق تارڑ، سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحبان جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس تصدق حسین جیلانی، لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس صاحبان جسٹس خلیل الرحمان خان اور جسٹس سید زاہد حسین، جسٹس(ر)سید جمشید علی شاہ، گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ،سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ، اٹارنی جنرل پاکستان ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، پاکستان بار کونسل و پنجاب بار کونسل کے ممبران و عہدیدار، لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن، لاہور بار ایسو سی ایشن و ضلعی اور تحصیل بار ایسو سی ایشنوں کے نمائندے، سینئر وکلاء، ضلعی عدلیہ کے ججز،چیف سیکرٹری پنجاب سمیت صوبائی انتظامیہ و پولیس اور آرمڈ فورسز کے نمائندے، سول سوسائٹی، غیر ملکی سکالرز، بین الاقوامی لاء تنظیموںکے نمائندے اور پنجاب کے مختلف لاء کالجز کے وفود نے شرکت کی۔

تقریب کی نظامت کے فرائض لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج مسٹر جسٹس مامون رشیدشیخ نے سر انجام دیئے۔خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہاکہ آج ہم لاہور ہائی کورٹ لاہور کے 150 سال مکمل ہونے کے موقع پر ہونے والی اس پُر وقار تقریب میں یہاں موجود ہیںاس سلسلے میں، میں سب سے پہلے جسٹس منصور علی شاہ ،ْ چیف جسٹس عدالتِ عالیہ لاہوراور ان کے رفقاء جج صاحبان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس تاریخی موقع پر مجھے یہاں مدعو کیا اور خطاب کی دعوت دی ایک ایسی تقریب سے خطاب کرنا جہاں قانون و انصاف، درس و تدریس اور دیگر اہم شعبہ ہائے زندگی سے وابسطہ نامور شخصیات موجود ہیں،میرے لیے باعث اعزاز ہے جیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں، لاہور ہائی کورٹ لاہور کو ملک کی قدیم ترین عدالت ہونے کی وجہ سے نہ صرف ایک تاریخی حیثیت بلکہ عدلیہ میں بھی منفرد مقام حاصل ہے۔

مجھ سے پہلے کے مقررین اس حوالہ سے تفصیل کے ساتھ اس عدالت کی تاریخ، عمل داری، کارگزاری، اختیارِ سماعت وغیرہ کے بارے میں بیان کر چکے ہیں۔ لہذا میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس عدالت نے تاریخی طور پر انصاف کی فراہمی اورقانون کی حکمرانی قائم کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس عرصہ میں عدالت نے اپنے فیصلوں کے ذریعے نہ صرف قوانین کی وضاحت کی ہے بلکہ بدلتے ہوئے معاشی اور سیاسی حالات کے تناظر میں ان کی موثر انداز میں تشریح بھی کی ہے۔

انہوںنے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ سے ہمیں ماضی میں بے شمار عظیم قانون دان اور جج حضرات حاصل ہوئے ہیں جو کہ علم و دانش، سمجھ بوجھ اور عقل و دانائی میں اپنی مثال آپ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نام جو میرے ذہن میں آتے ہیں ان میں جسٹس (ر)سر عبدالرشید، جسٹس (ر)اے آر کارنیلیس، جسٹس (ر) شکور عبدالسلام، جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال، جسٹس (ر) میاں اللہ نوازسے لے کر عدالت عظمیٰ کے موجود جج حضرات شامل ہیں۔

جن کی قانون کے بارے میں سمجھ بوجھ، کام کی لگن اور خدمات سے آپ سب لوگ بخوبی آگاہ ہیں۔ اس ملک میں نظامِ انصاف کے ارتقاء میں ان حضرات کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتابلکہ یہ ہمارے لئے ایک مشعل راہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ کو ایک اور وجہ سے بھی منفرد مقام حاصل ہے ۔ وہ یہ کہ یہ لاہور جیسے تاریخی شہر میں واقع ہے جو کہ پنجاب کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا مرکز ہے۔

لاہور کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اسے نہ صرف موجودہ دور میں اہمیت حاصل ہے بلکہ ماضی کے ہر دور میں نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔یہ نہ صرف تاریخ کا آئینہ دار ہے اوردورِ حاضر کا عکاس ہے بلکہ یہ قدیم اور جدید ادوار کی تہذیب و تمدن کا حسین امتزاج بھی پیش کرتا ہے۔تقریب کی مناسبت سے میں یہاںبیان کرتا چلوںکہ اس قسم کی تقریبات کا انعقاد محض رسمی نوعیت کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ اداروں کی ترقی میںیہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

ان سے نہ صرف ہمیں کسی ادارے کی ماضی کی کارکردگی کو جانچنے کا موقع ملتا ہے بلکہ ہم اس ادارے کی سابقہ منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہونے والی کاوشوں کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ یوںجہاں اس ادارے کے ماضی میں کئے گئے اچھے کاموں کی ستائش کا موقع ملتا ہے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس ادارے کو در پیش مشکلات اورمسائل کو سمجھنے اور باہمی مشاورت کے ذریعے ان کا حل تلاش کرنے کے سلسلے میںاورمستقبل کی بہتر انداز میںمنصوبہ بندی کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔

اس طرح کوئی بھی ادارہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور ناکامیوںکا جائزہ لے کر در پیش مشکلات سے بہتر انداز میں نبردآزما ہو سکتا ہے۔ خصوصاً فراہمی انصاف سے متعلقہ اداروں میں ہونے والی اس قسم کی تقریبات میں بنچ اور بار کے اراکین کو مل بیٹھنے اور مشاورت کا موقع ملتا ہے ۔ یوں نظامِ انصاف کو در پیش مشکلات کو جاننے اور ان کا حل تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے جس کا براہِ راست فائدہ عوام کو حاصل ہوتا ہے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ درخشاں اور تابناک رہی ہے۔ اس کی ابتداء محمد بن قاسم سے ہوئی جب انہوں نے یہاں کے ہندو مہاراجہ کو شکست دے کر مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کی۔ بعد ازاںبارہویں صدی عیسوی میںغوری، خلجی ، تغلق اور لودھی حکمرانوںسے ہوتے ہوئے سولہویں صدی میں پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے پہلی باقاعدہ اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جو کسی نہ کسی صورت میں انیسویں صدی تک حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی حکومت کی صورت میں قائم رہی۔

انگریز جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں تجارت کی غرض سے یہاں آئے تھے محلاتی سازشوں اور یہاں کے ابتر حالات کی وجہ سے اپنی فوج کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس طرح انہوں نے اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ ہندو مہاراجوں اور سیاسی راہنمائوں نے انگریزوں کا ساتھ دے کر مغل حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز دورِ حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف انگریزوں نے بلکہ ہندوئوں نے ظلم اور زیادتی کا برتاؤ کیااور مسلمانوں میں احساس محرومی نے جنم لیا جس نے نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور ابتداء میں انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے حصول کی سوچ نے جنم لیا۔

سر سید احمد خان جیسے قابل لوگوں نے عوام میں غلامی سے نجات کا شعور پیدا کیا۔ علامہ اقبال نے اسے ایک فلسفیانہ تصور دیا اور بعد ازاں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جستجو کے ذریعے اس کے حصول کو ممکن کر دکھایا۔ انہوں نے کہاکہ بنیادی نظریہ جس نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا وہ یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسا ملک ہونا چاہئے جہاں وہ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔

جہاں شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں ذات پات، رنگ و نسل اور عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر نا انصافی نہ ہو۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور انصاف کا بول بالا ہو۔ جیسا کہ حضرت قائد اعظم نے 11 اگست1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے اپنے صدارتی خطاب میں معاشرے کو در پیش مسائل اور ان کے حل کے سلسلے میں حکومت کی ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ امن و امان کو یقینی بنائے تا کہ عوام کی زندگی، جائیداد اور مذہبی عقائد کی مکمل حفاظت ہو۔

میرے نزدیک دوسری اہم بات یہ ہے کہ سب سے بڑی لعنت جس سے انڈیا متاثر ہے ،ْوہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ در حقیقت یہ ایک زہر ہے۔ ہمارے لئے اس سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا ضروری ہو گا اور مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائیں گے جیسے ہی اس اسمبلی کے لئے ایسا کرنا ممکن ہو گا۔ دوسری بڑی لعنت بلیک مارکٹنگ ہے ،ْ آج کے دور میں، جب کہ یہ ایک سنگین معاشرتی جرم کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس آفت سے نبردآزما ہوں۔ میرے نزدیک ایسے لوگوں کو سخت سزا ملنی چاہئے ،ْ اگلی چیز جو میرے ذہن میں آ رہی ہے وہ ہے اقربا پروری اور مفاد پرستی۔ یہاں میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں کبھی بھی اقربا پروری، مفاد پرستی اور اثر و رسوخ ، چاہے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر مجھ پر ڈالا جائے، برادشت نہیں کروں گا۔ ‘‘قائد اعظم کی سوچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قرار دادِ مقاصد کے ذریعے جسے بعد میں آئین کے آرٹیکل 2A کے ذریعے آئین کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے میں کہا گیا ہے کہ’’ ہم جمہورِ پاکستان ۔

بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کہ پاکستان عدل عمرانی کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہو گی،اس جمہوریت کے تحفظ کے لئے وقف ہونے کے جذبے کے ساتھ جو ظلم و ستم کے خلاف عوام کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے، اس عزم بالجزم کے ساتھ کہ ایک نئے نظام کے ذریعے مساوات پر مبنی معاشرہ تخلیق کر کے اپنی قومی اور سیاسی وحدت اور یک جہتی کا تحفظ کریں۔

‘‘انہوںنے کہا کہ ان مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے اور نظامِ حکومت کو موثر انداز میں چلانے کو یقینی بنانے کے لئے آئینِ پاکستان میں اختیارات کی تقسیم کا اصول وضع کیا ہے ۔ تقسیم اختیارات کے ذریعے اداروں کے مابین تحدید و توازن کا نظام قائم ہوتا ہے جو کہ جمہوریت کی اساس ہے ۔ اس اصول کے تحت مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کو وضع کردہ اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔

کسی بھی ادارے کو اپنی مقررہ حد سے تجاوز کرنے اور دوسرے ادارے کی حدود میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اسی طرح کوئی بھی ادارہ مطلق العنان نہیں بن سکتا جو کہ قانون کی حکمرانی کی بنیادی شرط ہے۔ البتہ عدلیہ کو عدالتی نظر ثانی کے تحت اس بات کا اختیار تفویض کیا گیا ہے کہ وہ مقننہ کے بنائے ہوئے قانون اور انتظامیہ کی کسی بھی کارروائی کا جائزہ لے اور اگروہ قانون یا آئین کی کسی شق سے متصادم ہو یا بنیادی حقوق پر قدغن عائد کرتا ہو تو اُسے کالعدم قرار دیں۔

اس سلسلے میں عدلیہ نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنے ان اختیارات کا محدود استعمال کرے اورصرف کسی سنگین آئینی یا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں ہی کوئی ایسا حکم جاری کرے۔ البتہ ایسا صرف عوام کی بہبود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور معاشرے میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ معاشرے میں خوشحالی اور معاشی ترقی کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی اور گڈ گورننس قائم ہو۔

ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہو اور میرٹ کے اصول پر عمل درآمد ہو ۔یہاں میں افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے قائد اعظم کے فرمان کو بھلا دیا ہے جس میں انہوں نے حکومت کی اولین ذمہ داری قرار دیا تھا کہ ملک سے نا انصافی ، رشوت ستانی ، بد عنوانی اور اقربا پروری کے خاتمے کو یقینی بنائے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔

آج ہم اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں لا قانونیت اور دہشت گردی کو فروغ حاصل ہواہے ۔ اگر ہمیں ایک مہذب قوم بننا ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں ان تمام بُرائیوں کا خاتمہ کرنا ہو گا جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ دیگر ادارے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو جائیں تو عدلیہ پر دہری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔

ایک طرف تو اسے فریقین کے مابین تنازعات اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اسے عوامی بہبود کے معاملات میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے بھی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ جہاں بھی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی ہو سب کی نظریں اعلیٰ عدلیہ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ عدالت عالیہ لاہور نے ہمیشہ عوام کے مسائل کے حل کے لئے اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری کو بطریقِ احسن ادا کیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ یہاں میں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ فراہمیِ انصاف کے سلسلے میں عدلیہ کو اپنی ذمہ داری بطریقِ احسن ادا کرنے کے سلسلے میں بار کی معاونت اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ جب تک بار عدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑی نہ ہو اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں بھر پور انداز میں ادا نہ کرے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی نا ممکن ہے ۔ لہٰذا ممبرانِ بار خصوصاً عہدے دارانِ بار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فراہمیِ انصاف میں در پیش مشکلات کے حل کے لئے اور سائلین کی مشکلات کے تدارک کے سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے لے کر تمام ضلعی عدالتیں خود مختار اور آزاد ہیں ،ْکسی کو خوش کرنے یامیڈیا ہائپ کی وجہ سے دباؤمیں آکرفیصلے نہیں کرسکتے چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ کسی طرح کسی طور پر بھی کسی قسم کے دباؤکا شکار نہیں۔ آخر میں میں ایک بار پھراس اہم موقع پر لاہور ہائی کورٹ لاہور سے منسلک تمام افراد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آنے وقتوں میں یہ عدالت اپنی روایات کوبرقرار رکھے گی بلکہ پہلے سے بھی بہتر اور موثر طریقے سے فراہمیِ انصاف کو یقینی بنائیگی۔

انہی الفاظ کیساتھ میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کو شاندار تقریبات کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتاہوں، جج کا کام محض مقدمات کونمٹانا نہیں بلکہ اسے کیس سے مکمل انصاف کرناچاہیے،جسٹس میاںثاقب نثارنے کہا کہ ہمارے پاس لامحدود اختیار نہیں ہیں، ہمیں قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے انصاف فراہم کرناہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ آ ج امید کرتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے آئندہ کے فیصلے ماضی سے زیادہ سے بہتر اور پہلے کی طرح تمام ہائیکورٹس سے بہترین ہوں گے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سیدمنصور علی شاہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام شرکاء کی کانفرنس میں موجود گی پر تہہ دل سے مشکور ہیں ، انہوں نے کہا کہ آج ہم نے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا ہے، اس ادارے کو مزید مضبوط بنانے کیلئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں، انہوںنے کہا کہ عدلیہ صرف ہائی کورٹ نہیں، وکلاء ، ضلعی عدلیہ اور سٹاف سب مل کر عدلیہ کا ادارہ مکمل کرتے ہیں، ہماری سوچ اجتماعی ہونی چاہیے، ادارے کو مقدم رکھنا چاہیے، فرد کی اہمیت ضروری ہے لیکن اتنی نہیں کہ اداروں کو پس پشت ڈال دیا جائے، آج ہم نے نظام کی بہتری کیلئے اصول وضع کرنا ہے اور ضابطہ کار بنانا ہے،فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے کو آگے لے کر جانے کیلئے خود احتسابی بہت ضروری ہے اور اس پر کبھی سمجھوتہ نہیںکیا جاسکتا، ہم کل یہاں نہیںہوں لیکن ادارہ یہیں ہوگا اور کل ہماری شفافیت اور میرٹ کاتقابلی جائزہ لیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج یہاںتمام ادارے موجود ہیں اور میں ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ اداروں کی آپس میں کور آرڈینیشن ہونی چاہیے، اداروںکے درمیان تمام معاملات بات چیت سے حل ہونے چاہیں اور ادارے اپنی حدود کار میں رہتے ہوئے کام کریں،تمام ادارے باہمی رابطوں کو استوار کریں اور ہمارے سامنے صرف اس ملک کی ترقی مقدم ہونی چاہیے۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس عدالتوں کے پانچ یا سات گھنٹے عوام کی امانت ہیں ، آج عہد کرنا ہوگا کہ اس امانت میں کبھی خیانت نہیں کریں اور اس میں کبھی رکاوٹ پیدا نہیںکرنے دیں گے، ان گھنٹوں کے بعد ہم تمام معاملات حل کر سکتے ہیں، لوگ ہم سے امیدیں وابسطہ کئے بیٹھے ہیں ، آج اس بات کو اعادہ کریں گے کہ لوگوں کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔

آج کانفرنس میں شرکت کرنے والے اپنے بزرگ جج صاحبان، سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور خصوصاًً وکلاء کے مشکور ہیں۔شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ بار اور بنچ کو نبی کریم ﷺ کی سیرت کی پیروی کرنی چاہئے اور دکھی سائلین کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے چاہیں۔کانفرنس سے اظہار خیال کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر رانا ضیاء عبد الرحمان کا کہنا تھا کہ بار اور بنچ کا مقصد عام آدمی کو وقت پر انصاف کی فراہمی ہے لیکن اگر ہم اپنے مقصد پورا نہ کر پائیں تو ہماری کوئی بھی تقریبات بے معنی ہیں، انہوں نے فوری اور معیاری انصاف کی فراہمی کے خواب کوشرمندہ تعبیر کرنے کیلئے لاہورہائی کورٹ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔

کانفرنس سے سیکرٹری لاہور ہائی کورٹ بار انس غازی، صدر سارک لاء بیرسٹر سید علی ظفر،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمان، اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور نذیر احمد گجانہ ، چیئرمین پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ و وائس چانسلر آئی ٹی یونیورسٹی عمر سیف چیمہ، آئی ٹی یونیورسٹی کے پروفیسر یعقوب بنگش، سید اعجاز الدین، لمزسکول آف لاء کے ڈین مارٹن لو، سینئر ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ، بیرسٹر خاور قریشی، اسٹریلین ماہر قانون ڈاکٹر لیونگسٹن آرمی ٹیگ، پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وومن فوزیہ وقار اور لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار عبد الناصر نے بھی خطاب کیا۔

کانفرنس میںلاہور ہائی کورٹ کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات کے سلسلہ میں خصوصی تیار کردہ تھیم سانگ اور پرومو، لاہور ہائی کورٹ لاہور اور اسکے بنچوں اور ضلعی عدلیہ میں پچھلے چالیس دن میں منعقدہ تمام تقریبات کی یادگاری تصاویر بھی شرکاء کو دکھا ئی گئیں جنہیں حاضرین کی جانب سے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔