پاکستان میں انسانی حقوق کی بات کرنا جرم بن گیا ،پاناما لیکس کے علاوہ پیمرا کے رولز پر بات کرنا بھی میڈیا کی ذمہ داری ہے‘ عاصمہ جہانگیر

عدلیہ کا کام ہے انسانی حقوق کی فراہمی کیلئے اپنا کردار ادا کرے ،عوام کو انصاف ملے بغیر جمہوری معاشرے کا تصور نا ممکن ہے‘ تقریب سے خطاب

ہفتہ 10 دسمبر 2016 18:40

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 دسمبر2016ء) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابقہ صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی بات کرنا جرم بن گیا ہے،پاناما لیکس کے علاوہ پیمرا کے رولز پر بات کرنا بھی میڈیا کی ذمہ داری ہے،گزشتہ دو ماہ سے سپریم کورٹ کے باہر ہر دوسرے دن توہین عدالت کی جارہی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پریس کلب میں انسانی حقوق کی عالمی دن کے موقع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر انسانی حقوق تنظیم کے سینئر رہنما آئی اے رحمن ،حسین نقی،افغان صحافی احمد رشید،ڈاکٹر مہدی حسن سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا کہ عدلیہ کا کام ہے کہ وہ انسانی حقوق کی فراہمی کیلئے اپنا کردار ادا کرے ،عوام کو انصاف ملے بغیر جمہوری معاشرے کا تصور نا ممکن ہے۔

(جاری ہے)

بلوچستان میں سر عام عام انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں ۔

سی پیک میں ان کو کیا ملنا ہے اس کا کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔انہوں نے کہاکہ پاناما لیکس پر ہر ٹاک شو میں بات کی جاتی ہے لیکن میڈیا اپنے حق کیلئے بات نہیں کرسکتا۔آئی اے رحمن نے کہا ہر روز نئے ضابطے اور قانون بنائے جارہے ہیں اور بلاوجہ اختیارات کی نوازشات کی جارہی ہیں لیکن دوسری طرف خوف کی چادر بھی چڑھا دی گئی ہیں کوئی اپنے حق کیلئے بات نہیں کرسکتا۔

جو انسانی حقوق کی بات کرے اس کو غدار کہا جاتا ہے یا قومی سلامتی کی خلاف ورزی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔معلومات تک رسائی کا قانون بھی صرف کاغذی کارروائی ہے ،کوئی کسی ادارے کے خلاف بات نہیں کرسکتا اور نہ معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا جن لوگوں کے اکائو نٹ ملک سے باہر ،بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کررہے یا ان کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں ایسے لوگ ہمارے حکمران اور لیڈر بنے ہوئے ہیں ،ہر بات پر کمیشن تو بنا دیا جاتا ہے لیکن اس کی رپورٹ شائع نہیں کی جاتی ہے۔