قانون و انصاف، درس و تدریس اور دیگر اہم شعبہ ہائے زندگی سے وابسطہ نامور شخصیات سے خطاب میرے لیے باعث اعزاز ہے، لاہور ہائی کورٹ کو ملک کی قدیم ترین عدالت ہونے کی وجہ سے منفرد مقام حاصل ہے، لاہور ہائی کورٹ نے انصاف کی فراہمی اورقانون کی حکمرانی قائم کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں

چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کا لاہور ہائیکورٹ کی تقریب سے خطاب

ہفتہ 10 دسمبر 2016 16:56

لاہور ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 دسمبر2016ء) لاہور ہائی کورٹ لاہور کے 150 سال مکمل ہونے کث سلسلے میں ہفتہ کو لاہور میں ایک پُر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا ، جس میں چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی ۔ تقریب سیخطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ، چیف جسٹس عدالتِ عالیہ لاہوراور ان کے رفقاء جج صاحبان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس تاریخی موقع پر مجھے مدعو کیا اور خطاب کی دعوت دی ۔

ایسی تقریب سے خطاب کرنا جہاں قانون و انصاف، درس و تدریس اور دیگر اہم شعبہ ہائے زندگی سے وابسطہ نامور شخصیات موجود ہیں،میرے لیے باعث اعزاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کو ملک کی قدیم ترین عدالت ہونے کی وجہ سے نہ صرف ایک تاریخی حیثیت بلکہ عدلیہ میں بھی منفرد مقام حاصل ہے۔

(جاری ہے)

اس حوالہ سے تفصیل کے ساتھ عدالت کی تاریخ، عمل داری، کارگزاری، اختیارِ سماعت وغیرہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، لہذا میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس عدالت نے تاریخی طور پر انصاف کی فراہمی اورقانون کی حکمرانی قائم کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

اس عرصہ میں عدالت نے اپنے فیصلوں کے ذریعے نہ صرف قوانین کی وضاحت کی ہے بلکہ بدلتے ہوئے معاشی اور سیاسی حالات کے تناظر میں ان کی موثر انداز میں تشریح بھی کی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ سے ہمیں ماضی میں بے شمار عظیم قانون دان اور جج ملے ہیں جو کہ علم و دانش، سمجھ بوجھ اور عقل و دانائی میں اپنی مثال آپ رہے ہیں۔ ان میں جسٹس (ر)سر عبدالرشید، جسٹس (ر)اے آر کارنیلیس، جسٹس (ر) شکور عبدالسلام، جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال، جسٹس (ر) میاں اللہ نوازسے لے کر عدالتِ عظمیٰ کے موجود جج حضرات شامل ہیں۔

جن کی قانون کے بارے میں سمجھ بوجھ، کام کی لگن اور خدمات سے آپ سب لوگ بخوبی آگاہ ہیں۔ اس ملک میں نظامِ انصاف کے ارتقاء میں ان حضرات کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتابلکہ یہ ہمارے لئے ایک مشعلِ راہ ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کو ایک اور وجہ سے بھی منفرد مقام حاصل ہے ۔ وہ یہ کہ یہ لاہور جیسے تاریخی شہر میں واقع ہے جو کہ پنجاب کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا مرکز ہے۔

لاہور کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اسے نہ صرف موجودہ دور میں اہمیت حاصل ہے بلکہ ماضی کے ہر دور میں نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔یہ نہ صرف تاریخ کا آئینہ دار ہے اوردورِ حاضر کا عکاس ہے بلکہ یہ قدیم اور جدید ادوار کی تہذیب و تمدن کا حسین امتزاج بھی پیش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی تقریبات کا انعقاد محض رسمی نوعیت کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ اداروں کی ترقی میںیہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

ان سے نہ صرف ہمیں کسی ادارے کی ماضی کی کارکردگی کو جانچنے کا موقع ملتا ہے بلکہ ہم اس ادارے کی سابقہ منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہونے والی کاوشوں کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ یوںجہاں اس ادارے کے ماضی میں کئے گئے اچھے کاموں کی ستائش کا موقع ملتا ہے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس ادارے کو در پیش مشکلات اورمسائل کو سمجھنے اور باہمی مشاورت کے ذریعے ان کا حل تلاش کرنے کے سلسلے میںاورمستقبل کی بہتر انداز میںمنصوبہ بندی کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔

اس طرح کوئی بھی ادارہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور ناکامیوںکا جائزہ لے کر در پیش مشکلات سے بہتر انداز میں نبردآزما ہو سکتا ہے۔ خصوصاً فراہمی انصاف سے متعلقہ اداروں میں ہونے والی اس قسم کی تقریبات میں بنچ اور بار کے اراکین کو مل بیٹھنے اور مشاورت کا موقع ملتا ہے ۔ یوں نظامِ انصاف کو در پیش مشکلات کو جاننے اور ان کا حل تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے جس کا براہِ راست فائدہ عوام کو حاصل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ درخشاں اور تابناک رہی ہے۔ اس کی ابتداء محمد بن قاسم سے ہوئی جب انہوں نے یہاں کے ہندو مہاراجہ کو شکست دے کر مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کی۔ بعد ازاںبارہویں صدی عیسوی میںغوری، خلجی ، تغلق اور لودھی حکمرانوںسے ہوتے ہوئے سولہویں صدی میں پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے پہلی باقاعدہ اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جو کہ کسی نہ کسی صورت میں انیسویں صدی تک حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی حکومت کی صورت میں قائم رہی۔

انگریز جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں تجارت کی غرض سے یہاں آئے تھے محلاتی سازشوں اور یہاں کے ابتر حالات کی وجہ سے اپنی فوج کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس طرح انہوں نے اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ ہندو مہاراجوں اور سیاسی راہنمائوں نے انگریزوں کا ساتھ دے کر مغل حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز دورِ حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف انگریزوں نے بلکہ ہندوئوں نے ظلم اور زیادتی کا برتاؤ کیااور مسلمانوں میں احساس محرومی نے جنم لیا جس نے نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور ابتداء میں انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے حصول کی سوچ نے جنم لیا۔

سر سید احمد خان جیسے قابل لوگوں نے عوام میں غلامی سے نجات کا شعور پیدا کیا۔ علامہ اقبال نے اسے ایک فلسفیانہ تصور دیا اور بعد ازاں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جستجو کے ذریعے اس کے حصول کو ممکن کر دکھایا۔ بنیادی نظریہ جس نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا وہ یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک ایسا ملک ہونا چاہئے جہاں وہ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔

جہاں شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں ذات پات، رنگ و نسل اور عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر نا انصافی نہ ہو۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور انصاف کا بول بالا ہو۔ جیسا کہ حضرت قائد اعظم نے 11 اگست1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے اپنے صدارتی خطاب میں معاشرے کو در پیش مسائل اور ان کے حل کے سلسلے میں حکومت کی ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ امن و امان کو یقینی بنائے تا کہ عوام کی زندگی، جائیداد اور مذہبی عقائد کی مکمل حفاظت ہو۔

میرے نزدیک دوسری اہم بات یہ ہے کہ سب سے بڑی لعنت جس سے انڈیا متاثر ہے وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ در حقیقت یہ ایک زہر ہے۔ ہمارے لئے اس سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا ضروری ہو گا اور مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائیں گے جیسے ہی اس اسمبلی کے لئے ایسا کرنا ممکن ہو گا۔ دوسری بڑی لعنت ہے بلیک مارکٹنگ ہے جو آج کے دور میں، جبکہ یہ ایک سنگین معاشرتی جرم کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

اس آفت سے نبردآزما ہونا چاہئے۔ میرے نزدیک ایسے لوگوں کو سخت سزاء ملنی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگلی چیز جو میرے ذہن میں آ رہی ہے وہ ہے اقربا پروری اور مفاد پرستی۔ انہوں نے واضح کیا کہ میں کبھی بھی اقربا پروری، مفاد پرستی اور اثر و رسوخ ، چاہے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر مجھ پر ڈالا جائے، برادشت نہیں کروں گا۔قائد اعظم کی سوچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قرار دادِ مقاصد کے ذریعے جسے بعد میں آئین کے آرٹیکل 2A کے ذریعے آئین کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے میں کہا گیا ہے کہ:’’ ہم جمہورِ پاکستان بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کہ پاکستان عدل عمرانی کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہو گی،اس جمہوریت کے تحفظ کے لئے وقف ہونے کے جذبے کے ساتھ جو ظلم و ستم کے خلاف عوام کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے، اس عزم بالجزم کے ساتھ کہ ایک نئے نظام کے ذریعے مساوات پر مبنی معاشرہ تخلیق کر کے اپنی قومی اور سیاسی وحدت اور یک جہتی کا تحفظ کریں۔

‘‘ان مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے اور نظامِ حکومت کو موثر انداز میں چلانے کو یقینی بنانے کے لئے آئینِ پاکستان میں اختیارات کی تقسیم کا اصول وضع کیا ہے ۔ تقسیمِ اختیارات کے ذریعے اداروں کے مابین تحدید و توازن کا نظام قائم ہوتا ہے جو کہ جمہوریت کی اساس ہے ۔ اس اصول کے تحت مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کو وضع کردہ اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔

کسی بھی ادارے کو اپنی مقررہ حد سے تجاوز کرنے اور دوسرے ادارے کی حدود میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اسی طرح کوئی بھی ادارہ مطلق العنان نہیں بن سکتا جو کہ قانون کی حکمرانی کی بنیادی شرط ہے۔ البتہ عدلیہ کو عدالتی نظر ثانی کے تحت اس بات کا اختیار تفویض کیا گیا ہے کہ وہ مقننہ کے بنائے ہوئے قانون اور انتظامیہ کی کسی بھی کارروائی کا جائزہ لے اور اگروہ قانون یا آئین کی کسی شق سے متصادم ہو یا بنیادی حقوق پر قدغن عائد کرتا ہو تو اُسے کالعدم قرار دیں۔

اس سلسلے میں عدلیہ نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنے ان اختیارات کا محدود استعمال کرے اورصرف کسی سنگین آئینی یا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں ہی کوئی ایسا حکم جاری کرے۔ البتہ ایسا صرف عوام کی بہبود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور معاشرے میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں خوشحالی اور معاشی ترقی کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی اور گڈ گورننس قائم ہو۔

ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہو اور میرٹ کے اصول پر عمل درآمد ہو ۔یہاں میں افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے قائد اعظم کے فرمان کو بھلا دیا ہے جس میں انہوں نے حکومت کی اولین ذمہ داری قرار دیا تھا کہ ملک سے نا انصافی ، رشوت ستانی ، بد عنوانی اور اقرباء پروری کے خاتمے کو یقینی بنائے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔

آج ہم اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں لا قانونیت اور دہشت گردی کو فروغ حاصل ہواہے ۔ اگر ہمیں ایک مہذب قوم بننا ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں ان تمام بُرائیوں کا خاتمہ کرنا ہو گا جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ عدالت فریقین کے مابین تنازعات اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے۔

دوسری طرف اسے عوامی بہبود کے معاملات میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے بھی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ جہاں بھی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی ہو سب کی نظریں اعلیٰ عدلیہ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ عدالت عالیہ لاہور نے ہمیشہ عوام کے مسائل کے حل کے لئے اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری کو بطریقِ احسن ادا کیا ہے۔

یہاں میں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ فراہمیِ انصاف کے سلسلے میں عدلیہ کو اپنی ذمہ داری بطریقِ احسن ادا کرنے کے سلسلے میں بار کی معاونت اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ جب تک بار عدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑی نہ ہو اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں بھر پور انداز میں ادا نہ کرے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی نا ممکن ہے ۔ لہٰذا ممبرانِ بار خصوصاً عہدے دارانِ بار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فراہمیِ انصاف میں در پیش مشکلات کے حل کے لئے اور سائلین کی مشکلات کے تدارک کے سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

انہوں نے اس اہم موقع پر لاہور ہائی کورٹ لاہور سے منسلک تمام افراد کو مبارک باد پیش کی اور امید کی کہ آنے وقتوں میں یہ عدالت اپنی روایات کوبرقرار رکھے گی بلکہ پہلے سے بھی بہتر اور موثر طریقے سے فراہمیِ انصاف کو یقینی بنائے گی۔ تقریب میں جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب، نامزد چیف جسٹس عدالتِ عظمیٰ پاکستان، سید منصور علی شاہ صاحب ، چیف جسٹس عدالتِ عالیہ لاہوراور دیگر رفقاء جج صاحبان عدالتِ عالیہ لاہور، اٹارنی جنرل پاکستان ،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سمیت سابق جج صاحبان عدالتِ عظمی پاکستان اور عدالتِ عالیہ لاہور اور بار کونسل کے اراکین نے شرکت کی ۔