یمن کے معزول صالح کی حوثی حلیفوں پر شدید تنقید

حکومت کو ئی مال غنیم نہیں نہ کسی کو حق ہے فلاں کو بے دخل کردے کسی کو تبدیل کردے،اجلاس سے خطاب

ہفتہ 10 دسمبر 2016 12:17

صنعا (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 دسمبر2016ء) یمن کے معزول صدر علی عبداللہ صالح نے اپنے حلیف حوثیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ستمبر 2014 میں باغیوں کے صنعا میں داخل ہونے اور صالح کی سپورٹ سے آئینی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد معزول صدر کی زبانی سامنے آنے والی یہ پہلی نکتہ چینی ہے۔ صالح تشکیل پانے والی باغی حکومت میں اپنی جماعت پیپلز کانگریس کے نمائندوں کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انہوں نے حوثیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ حکومت کوئی مالِ غنیم نہیں ہے۔ تبدیلیاں اور تبادلے قانون اور آئین کے دائرے میں ہونا چاہیئں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ فلاں کے بے دخل کرے اور فلاں کو تبدیل کرے۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے قانون میں جانے گئے معیار ہیں۔حوثیوں کے حالیہ اقدامات اور باغی کمانڈر صالح صماد کے زیر صدارت سپریم سیاسی کونسل کی جانب سے تقرر کے فیصلوں پر برہمی کا واضح اظہار کرتے ہوئے علی عبداللہ صالح نے کہا کہ سپریم سیاسی کونسل کو انتظامیہ کا روپ نہیں دھارنا چاہیے ، یہ حکومت کو پالیسیاں پیش کرنے والی ایک سیاسی کونسل ہے جب کہ عمل درامد کی ذمے دار صرف حکومت ہے،یمن کی آئینی حکومت کا تختہ الٹنے اور 6 فروری 2015 کو نام نہاد آئینی اعلان کے بعد سے حوثی ملیشیاں نے انتظامیہ اور ملازمتوں کے امور میں غیرمسبوق نوعیت کی بدعنوانی برپا کی۔

باغیوں نے اپنے ہزاروں ارکان کو ریاستی ادارون میں بھرتی کر ڈالا جب کہ اپنے سیکڑوں افراد کو اعلی منصبوں پر مقرر کر دیا۔حوثیوں کی جانب سے کی جانے والی اکھاڑ پچھاڑ آئینی حکومت کے ملازمین تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے معزول صالح کی پیپلز کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں حکومتی اہل کاروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس دوران حوثیوں کی حلیف پیپلز کانگریس کی جانب سے چپ سادھ رکھنے پر پارٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنان اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد نے سوشل میڈیا پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔

تاہم ان تمام ردعمل کو سرکاری نہیں بلکہ ذاتی مواقف کا نام ہی دیا جاتا رہا۔حوثیوں کی جانب سے اپنے حلیفوں کو سائڈ لائن لگانے کا سلسلہ جاری رہنے کے ساتھ معزول صدر صالح کی جماعت نے رواں ماہ کے آغاز میں " اشارتا " حوثی ملیشیا کے ساتھ اختلافات ہونے کا اعتراف کیا تھا۔اس روز جنرل پیپلز کانگریس پارٹی کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ "ریسکیو گورنمنٹ" کہلائی جانے والی حکومت کو اپنی ذمہ داریاں صرف جمہوریہ یمن کے آئین اور نافذ العمل قوانین کے تحت ادا کرنا چاہئیں اور اس سلسلے میں کسی جانب سے کوئی مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔

متعلقہ عنوان :