سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی

جمعہ 9 دسمبر 2016 23:40

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 دسمبر2016ء) سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ اس اہم ترین کیس کی سماعت نیابنچ کرے گا عدالت نے اپنے مختصر فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے دائر درخواستوں کی اب تک کی جانے والی سماعت کو(Part heard) یعنی( سنا ہوا مقدمہ) تصور نہ کیا جائے، اسی بنا پرہی نیا بنچ کیس کی ا ز سر نو سماعت کر سکے گا، عدالت نے واضح کیا کہ کمیشن کی تشکیل عدالت کی صوابدید پرہے جس کی تشکیل کیلئے فریقین کی رضا مندی ضروری نہیں، جمعہ کوچیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میںجسٹس آصف سعید خان کھوسہ ، جسٹس امیر ہانی مسلم،جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر چیف جسٹس نے فریقین کی جانب سے دائر درخواستوں میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے یا سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کرنے کے حوالے سے فریقین کے وکلاء سے رائے طلب کی تووزیراعظم محمد نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عدالت جوفیصلہ کرے گی ،ہمیں قبول ہوگا ، ہمیں نہ کمیشن کی تشکیل پر کوئی اعتراض ہے اور نہ ہم تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے،فاضل وکیل نے مزید کہاکہ میرے موکل وزیراعظم میاں نواز شریف پرکسی طرح کا کوئی الزام ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا ہے، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے بچوں حسن نواز ،حسین نواز اور مریم نواز کے وکیل اکرم شیخ سے اس حوالہ سے استفسار کیا توانہوںنے جواب دیاکہ میرے موکلان کو کمیشن کی تشکیل پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،تاہم آئین کے آرٹیکل 184(3 ) کے پانامہ لیکس کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت اوراس آرٹیکل کے تحت مجوزہ کمیشن کے دائرہ اختیار پر ہمیں اعتراضات ہیں ، میرے دو موکلان حسن نواز اور حسین نواز تارکین وطن پاکستانی ہیں، دوسری جانب تسلسل کے ساتھ شریف خاندان اور فاضل عدالت کا میڈیا ٹرائل اور پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ، میڈیا کوایک جواب گزار،جو اس ملک کے چیف ایگزیکٹو (وزیر اعظم )ہیں، کی عزت اور وقار کا خیال رکھنا چاہئے ۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران عدالت کے ایک استفسار پر عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کوبتایاکہ ان کے موکل کو یقین ہے کہ ہم نے اپنا کیس مضبوط کردیا ہے اس لئے فاضل عدالت ہی اس پر اپنا فیصلہ جاری کرے ، عدالت جو بھی فیصلہ دے گی وہ ہمیں قبول ہوگا ، انہوں نے واضح کیاکہ میرا موکل پانامہ لیکس کے حوالے سے کمیشن کی تشکیل کیخلاف ہے ، اس لئے کمیشن تشکیل دینے پر ہم کیس کا بائیکاٹ کریں گے، عدالت کے روبرو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے موقف اختیار کیا کہ20 کروڑ عوام اصرار کر رہے ہیں کہ ان درخواستوں پر یہی پانچ رکنی لارجر بنچ ہی اپنا فیصلہ سنائے، چیف جسٹس نے کہا کہ جب مدعا علیہان کے وکلاء کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس گزشتہ 40 سال کا منی ٹریل ریکارڈ موجود ہے اور نہ اس حوالے سے کوئی دستاویز دستیا ب ہے ،ایسی صورت میں عدالت کیا کر سکتی ہے ، شیخ رشید نے کہا کہ یہی ایک آپشن ہے کہ عدالت ریکارڈ اورشواہدکی روشنی میں اپنا فیصلہ جاری کرے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کوکیس کا فیصلہ خودکرنے میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ، ٓآرٹیکل 184(3)کے تحت مفاد عامہ کے کیس میں عدالت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور ہم نہیں چاہتے کہ مخالف فیصلہ آنے پر کوئی کہے کہ اس کاموقف نہیں سنا گیا ہے ،اسی وجہ سے ہم تمام فریقین کا موقف سننا چاہتے ہیں، کمیشن کی تشکیل کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ساری دستاویزات کا جائزہ لیا جاسکے اور بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اسے کیس ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا ،ہم تمام فریقین کا احترام کرتے ہیں کہ انہوں نے بینچ پر اعتماد کیا ہے۔

یہ واضح کیا جاتاہے کہ کمیشن کی تشکیل عدالت کی صوابدید پرہے ، اور اس کی تشکیل کے لئے فریقین کی رضا مندی ضروری نہیں ہے، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وہ 15 دسمبر کو اپنے اعزاز میں دیئے جانے والے فل کورٹ ریفرنس کے بعد عدالت میں نہیں بیٹھیں گے،اگر جج ایک بار اپنا (گائون )چغہ اتار دے تووہ عدالت میں نہیں بیٹھتا ، اداروں میں لوگ آتے جاتے ہیں ،اصل اہمیت اداروں کی ہوتی ہے،جن کو چلتے رہنا چاہیے ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس بنچ میں مقدمہ چلانے کے لئے آئندہ ہفتہ میں صرف دو ورکنگ ڈے بچتے ہیں اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ دو دنوں میں اس اہم ترین کیس کی سماعت مکمل کرکے اس کا فیصلہ جاری کرنا ممکن نہیں ، کچھ دنوں بعد عدالتوں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا بھی آغاز ہونے والا ہے، ایسی صورت میں مزید سماعت جاری رکھنا ممکن نہیںہوگا ،بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے نئے بنچ کی تشکیل کے حوالہ سے مختصرحکم جاری کردیااور قرار دیا کہ ان درخواستوں کی اب تک کی سماعت کو(Part heard) ’سنا ہوا مقدمہ‘ تصور نہ کیا جائے، اگر نیا بنچ چاہے تو وہ اس کیس کی ا ز سر نو سماعت کر سکے گا اور وکلاء کو دوبارہ دلائل دینا ہوں گے۔