گھروں، سکولوں اور دفاتر میں صنفی امتیاز ختم کر کے دنیا بھر میں امن قائم کیا جا سکتا ہے،تنظیم انسانی حقوق

انسانی حقوق کی تنظیمیں یورپین یونین کے تعاون سے پاکستان میں انسانی حقوق کی ابتر صورت حال میں بہتری لانے کے لئے کام کررہی ہیں ،اکستان کے عوام کیلئے انسانی حقوق کو یقینی بنانے کیلئے بہتر سے بہتر قانون سازی کی جدوجہد جاری ہے، عمومی تعلیم سے بھی صنفی امتیاز ختم نہیں جا سکتا ہے، صنفی امتیاز سے پیدا مسائل اور ان کے خاتمے کیلئے شعور بیدار کر کے ہی اس مسئلے کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں ڈاکٹرروبینہ علی، بلقیس طاہر ہ ، فاطمہ عاطف ،سجاد اکبر اور دیگرکی مشترکہ پریس کانفرنس

جمعہ 9 دسمبر 2016 22:30

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 09 دسمبر2016ء) انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں ڈاکٹرروبینہ علی، بلقیس طاہر ہ ، فاطمہ عاطف ،سجاد اکبر، آفتاب اعوان،عطاء اللہ خادازئی اور دیگر نے کہاہے کہ مقامی سطح پر امتیازی سلوک کے خاتمے سے دنیا بھر میں اس برائی کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے، انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں یورپین یونین کے تعاون سے پاکستان میں انسانی حقوق کی ابتر صورت حال میں بہتری لانے اورپاکستان کے عوام کے لئے انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لئے بہتر سے بہتر قانون سازی کی جدوجہد کر رہی ہیں، انسانی حقوق کے نمائندوں کاکہنا ہے کہ عمومی تعلیم سے بھی صنفی امتیاز ختم نہیں جا سکتا ہے، صنفی امتیاز سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان کے خاتمے کے لئے شعور بیدار کر کے ہی اس مسئلے کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ جمعہ کو یہاں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف غیرسرکار ی تنظیموں کے کنسورشیم ’’مین انگیج ‘‘کی جانب سے کہاگیاہے کہ رواں سال ’ صنفی بنیادوں پر کئے جانے والے تشدد کے خلاف سولہ روزہ مہم ‘ کوپچیس برس مکمل ہو رہے ہیں ۔ صنفی تشدد کے خاتمے کے لئے اس قسم کی مہم پہلی مرتبہ 1991 میں شروع کی گئی تھی ۔

سال 2016کی سولہ روزہ مہم کا مقصدہے کہ -’’ گھروں میں امن کے قیام سے دنیا بھر میں امن قائم کیا جا سکتا ہے ۔‘‘ یعنی رواں سال کی مہم کا مقصدگھروں، دفاتر، سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں خواتین سمیت نسل انسانی کی دیگر انواع سے برتے جانے والے امتیازی سلوک کا خاتمہ ہے ۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی نمائندہ تنظیم ’’شراکت ‘‘ ، ’’ مین انگیج‘‘ کے نمائندوں کا موقف ہے کہ مقامی سطح پر امتیازی سلوک کے خاتمے سے دنیا بھر میں اس برائی کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔

انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں یورپین یونین کے تعاون سے پاکستان میں انسانی حقوق کی ابتر صورت حال میں بہتری لانے اورپاکستان کے عوام کے لئے انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لئے بہتر سے بہتر قانون سازی کی جدوجہد کر رہی ہیں ۔ انسانی حقوق کے نمائندوں کاکہنا ہے کہ عمومی تعلیم سے بھی صنفی امتیاز ختم نہیں جا سکتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ صنفی امتیاز سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان کے خاتمے کے لئے شعور بیدار کر کے ہی اس مسئلے کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے ۔

صنفی امیتاز کے حوالے سے مختلف اقسام کے ظلم و تشدد، نا انصافی اور رویوں کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ جسمانی تشدد جیسا کہ قتل، جنسی زیادتی اور مارپیٹ کے علاوہ گلی محلوں اور گھروں اور سکولوں میں خواتین، مردوں اور نوجوانوں کو ایسے حالات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں ان پر بظاہر تشدد تو نہیں ہوتا تاہم ذہنی اذیت کے باعث ان کے رویوں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

انسانی حقوق کے نمائندوں نے غربت، بھوک، افلاس اور احساس محرومی جیسے مسائل کو بھی صنفی امتیاز قرار دیا ہے ۔ جس کا عمومی شکار بچے اور خواتین ہوا کرتے ہیں ۔ نمائندوں نے زور دیا کہ ملک بھر سے ان تمام لعنتوں کے خاتمے کے لئے حکومت مناسب قانون سازی کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لئے تمام ادارے مل کر اور فعال انداز میں کام کریں تا کہ بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد سے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنایا جا سکے ۔

متعلقہ عنوان :