کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 دسمبر2016ء) صدر انجمن اساتذہ جامعہ کراچی پروفیسر
ڈاکٹر شکیل فاروقی نے کہا کہ معذور افراد سے اپنائیت، محبت اور شفقت کا عمل ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے اوران کیلئے موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے لیکن ہماری طرح کے معاشرے جو نسبتاًقدامت پسند کہلاتے ہیںہماراملک جو ایک ترقی پذیر ملک کہلاتاہے وہاں اس بات کی بہت زیادہ ضرورت کہ لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ یہ کیاچیلنج ہے اور اس چیلنج سے کس طرح نمٹاجاسکتاہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں من حیث القوم ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیںاور بیرون ملک مقیم افراد کے لئے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے کہ پاکستان ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے ہے۔سائنس کے میدان میں ترقی کاپیمانہ تین درجوں میں تقسیم ہے پہلا درجہ ایجاد کا ہے ،دوسرادرجہ اینوویشن اور تیسرادرجہ ڈسکوری کا ہے جبکہ چوتھا درجہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا ہے جس سے ہم استفادہ کررہے ہیں اورجولمحہ فکریہ ہے۔
(جاری ہے)
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کیشعبہ خصوصی تعلیم کے زیر اہتمام معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ سیمینار بعنوان ’’خصوصی تعلیم میں ٹیکنالوجی کا کردار‘‘ سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے مزید کہا کہحقیقت یہ ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے درجے سے آگے نہیں جاسکے جو افسوسناک ہے،ٹیکنالوجی آپ کی تہذیب ،معاشرت اور ثقافت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے کوئی بھی نئی ٹیکنالوجی آئے تو وہ انتہائی مہنگی ثابت ہوتی ہے،علاوہ اس کے آپ اسے اپنی ثقافت ،کلچر،ا، معیشت اوراپنی معاشرت میں سمونہ دیں،دنیاکے دیگر معاشروں نے اپنی ضرورت کے حساب سے ٹیکنالوجی کو ایجاد کیا جبکہ ہم نے اس ٹیکنالوجی کو اسی شکل میں اُٹھایا اور اپنے ہاں منتقل کردیا جو افسوسناک امرہے ۔
جامعہ کراچی کے شعبہ خصوصی تعلیم کی انچارج
ڈاکٹر حمیرا عزیز نے کہا کہ خصوصی افراد کی کفالت اور نگہداشت کرناکسی بھی معاشرے کے صحت مند ہونے کی دلیل ہوتی ہے، 2016ء میں اقوام متحدہ نے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز متعارف کروائے جن میں ایک اہم ہدف معذورافراد کو معیاری اور بلاتفریق زندگی کی بہترین سہولیات کی فراہمی ہے،1992 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 03 دسمبر کو معذورافراد کا عالمی دن منانے کی منظوری دی جس کے بعد یہ دن سالانہ منایاجاتاہے۔
مذکورہ سیمینار کا مقصد پروفیشنلز اور اسپیشل ایجوکیشن کے ماہرین کے اشتراک سے معذور افراد کو معاشرے کا ایک اہم اور کارآمد شہری بنانے کے لئے مثبت اقدامات کی جانب فیصلہ کن پیش رفت کرناہے۔جامعہ کراچی کے شعبہ خصوصی تعلیم کی
ڈاکٹر سائرہ سلیم نے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 15 فیصد یعنی تقریباً65 کروڑ افراد کسی نہ کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔
معذورافراد دنیا کا سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہیں جس کی وجہ سے دنیا بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے کروڑوں خاندان متاثر ین میں شامل ہیں۔عصر حاضر میں جہاں ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کے لئے آسائشیں پیداکی ہیں اسی طرح معذور افراد کو بھی ایک پرسکون اور معیاری زندگی کی سہولیات کی فراہمی میں ٹیکنالوجی کلیدی حیثیت کی حامل ہے اور تخلیقی ٹیکنالوجی کی مدد سے اس شعبہ میں مزید بہتری کے امکانات روشن ہیں۔
کلینکل سائیکولوجی نیشنل سینٹر آف اسپیشل ایجوکیشن
ڈاکٹر عائشہ ہمدانی نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے معذورافراد کو روزہ مرہ کے کاموں کی انجام دہی میں مددمل رہی ہے ،کھانے پینے ،آڈیوڈیواسز کے ذریعے کوئی بھی کام کرنے اور ویڈیوبیس مشینوں کے ذریعے روزہ مرہ کے کام کاج میں معذور افراد کو بھر پورسہولت مل جاتی ہے۔ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق ان ٹیکنالوجیکل مشینوں کے مہنگے ہونے اور ان کی عدم آگاہی کی وجہ سے بیشتر معذورافراد ان کے استعمال سے محروم رہ جاتے ہیںان کے علاوہ مشینوں کی محدودیت اور ان کو استعمال کرنے کے طریقہ کار کی پیچیدگی کے باعث بھی وہ عام معذورافراد کی دسترس سے دور ہیں۔
سیمینار سے پرنسپل پاکستان ڈس ایبل فائونڈیشن شکیلہ یاسمین،چیئرمین پاکستان ڈس ایبل فائونڈیشن پروفیسر شاہد میمن،پرنسپل دیوا اکیڈمی رضوان احمد لودھی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔#