طیارے کا بایاں انجن فیل ہوگیا تھا ،ْابتدائی رپورٹ

طیارہ غیر متوازن طریقے سے پرواز کر رہا تھا جس کے بعد تیزی سے نیچے آیا اور گر کر تباہ ہوگیا ،ْ رپورٹ

جمعہ 9 دسمبر 2016 13:18

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2016ء) حویلیاں کے قریب پہاڑوں پر گر کر حادثے کا شکار ہونے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی ای) کے طیاراے ٹی آر 42 نے 13 ہزار 375 فٹ کی بلندی تک روانی سے پرواز کی جس کے بعد اس کے بائیں انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا اور انجن کے دھماکے نے دنگ کو نقصان پہنچایا۔ نجی ٹی وی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ابتدائی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ طیارہ غیر متوازن طریقے سے پرواز کر رہا تھا جس کے بعد وہ تیزی سے نیچے آیا اور گر کر تباہ ہوگیا۔

جہاز کے غیر متوازن ہونے کا آغاز تقریباً 4 بج کر 12 پر ہواجس کے بعد پائلٹ نے اس کے ایک انجن خراب ہوجانے کی رپورٹ دی اور پھر چند لمحوں کے دوران طیارہ اپنی اونچائی کھوتے ہوئے پہاڑوں پر جاگرا۔

(جاری ہے)

سول ایوی ایشن کی ابتدائی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ خرابی سامنے آنے کے بعد جہاز چند ملی سیکنڈز کے لیے مستحکم رہا اور پائلٹ نے اس پر دوبارہ کنٹرول بھی حاصل کرلیا تھا لیکن اس کے چند منٹوں بعد ہی وہ ریڈار سے غائب ہوگیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ATR 42-500 ایئرکرافٹ کے حالیہ ورڑنز میں سے ایک ہے ،ْاس کی پہلی ڈیلیوری 1995 میں ہوئی ،ْپی آئی اے کو یہ طیارہ 14 مئی 2007 کو دیا گیا۔اس جہاز کا انجن 2014 میں بھی ایک بار خراب ہوا تھا جس کے بعد اسے تبدیل کردیا گیا اس کے بعد سے یہ روانی سے پرواز کر رہا تھا، جبکہ جہاز کا انجن محفوظ اور مضبوط ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی موجود تھا۔حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہونے سے قبل یہ جہاز 18 ہزار 740 گھنٹوں کی مسافت طے کرچکا تھا، حادثے سے قبل موسم بھی معمول کے مطابق تھا ،ْطیارے کے پائلٹ کو شمالی علاقوں کا وسیع تجربہ تھا۔

رپورٹ کے مطابق پی کے 661 فلائٹ کو ساخت کے لحاظ سے نقصان پہنچا تھا اور چونکہ جہاز بغیر کنٹرول کے گراہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پائلٹ جہاز پر قابو کھو چکا تھا اور طیارہ گلائیڈ کرنے میں ناکام رہا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر اے ٹی آر کے دونوں انجن بند ہوجائیں یا کام کرنا چھوڑ دیں، تب بھی یہ طیارہ گلائیڈ کر سکتا ہے تاہم طیارہ اس وقت بے قابو ہوکر گر جائیگا جب اس کی ساخت کو نقصان پہنچا ہو اور اس وقت اس بات کے امکانات ہیں کہ خراب انجن پھٹ جائے اور اس سے منسلک وِنگ کو نقصان پہنچے ،ْپائلٹس کے پاس جہاز کا انجن بند کرنے کا طریقہ ہوتا ہے اور انجن بند کرنے سے قبل اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ جہاز کی اونچائی اور رفتار کم کی جائے تاکہ اس کی باہر کی صورتحال کی ایروڈائنامکس سے ہم آہنگی ہوسکے اور پی کے 661 کے پائلٹس سے ایسا ہی کیا تھا۔

رپورٹ میںکہا گیا کہ پائلٹس خرابی کا شکار ہونے والے انجن کو یک دم بند نہیں کرتے بلکہ وہ جہاز کو ایک خاص اونچائی اور رفتار تک لاتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ دوسرا انجن وزن اور ایروڈئنامکس کو برداشت کرسکے۔حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے پائلٹ نے ایسا ہی کیا تھا تاہم خراب انجن میں شاید آگ لگ چکی تھی جس نے وِنگ کو نقصان پہنچایا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جہاز کو کیسے حادثہ پیش آیا اس حوالے سے بظاہر جو نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ پائلٹ نے جہاز کی اونچائی اور رفتار کم کی تھی جس کے بعد طیارہ ساخت کو نقصان پہنچنے کے باعث بے قابو ہوکر گر گیا پائلٹ نے خراب انجن کو بند بھی کیاجو پہلے ہی پھٹ چکا تھا اور اس نے ونگ کو نقصان پہنچایا تھارپورٹ کے مطابق طیارہ اچھی اونچائی اور رفتار پر پرواز کر رہا تھا اس لیے اس کی راہ میں رکاوٹ آنے کے کوئی امکانات نہیں تھے، جبکہ جہاز کا ایندھن بھی کسی طور پر کم نہیں تھا تاہم طیارہ حادثے کی مکمل تفصیلات اس کے بلیک باکس سے حاصل ہونے والی معلومات کی ڈی کوڈنگ کے بعد ہی ممکن ہوگی۔