Live Updates

پاناما کیس ،ْکمیشن بنا تو بائیکاٹ کرینگے ،ْ تحریک انصاف کا سپریم کورٹ میں موقف

ریٹائر ہورہا ہوں، فل کورٹ ریفرنس کے بعد کسی بینچ میں نہیں بیٹھوں گا ،ْ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی‘ ،ْپاناما کیس کی سماعت ازسرنو ہوگی کمیشن کی تشکیل پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی عدالت کے کسی کام میں رکاوٹ بنیں گے ،ْ وکلاء شریف فیملی کمیشن کی تشکیل عدالت کی صوابدید ہے ،ْ کیس کا خود فیصلہ کر نے میں کوئی مسئلہ نہیں ،ْ تمام فریقین کو سننا چاہتے ہیں ،ْ سپریم کورٹ حسن نواز اور حسین نواز اوورسیز پاکستانی ہیں ،ْعدالت سمجھے تو ہم تحقیقات میں رکاوٹ نہیں بنیں گے ،ْاکرم شیخ مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر اپنی تعطیلات موخر کر دیں تو انتہای اہم نوعیت کا مقدمہ حل ہو سکتا ہے ،ْشیخ رشید آپ نے پتہ نہیں پڑھے ہیں یا نہیں مگر ہمیں ہزاروں صفحات پڑھنا ہوں گے ،ْجسٹس شیخ عظمت سعید کا جواب

جمعہ 9 دسمبر 2016 13:13

پاناما کیس ،ْکمیشن بنا تو بائیکاٹ کرینگے ،ْ تحریک انصاف کا سپریم کورٹ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2016ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف نے پاناما لیکس کی معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کمیشن تشکیل دیا گیا تو بائیکاٹ کرینگے جبکہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ وہ ریٹائرڈہو رہے ہیں فل کورٹ ریفرنس کے بعد کسی بنچ میں نہیں بیٹھیں گی-کیس کی ازسر نو سماعت جنوری میں ہو گی ۔

جمعہ کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر مختصر سماعت کی اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر رہنماؤں سمیت مسلم لیگ (ن) کے وکلاء بھی موجود تھے ۔ سماعت کے دور ان بینچ نے ریمارکس دیئے کہ الزام لگانے والی پارٹی اور جس پر الزام لگایا گیا ہے دونوں نے جو دستاویزات عدالت میں جمع کرائی ہیں وہ کوئی بھی فیصلہ دینے کیلئے ناکافی ہیں لہٰذا اِس معاملے کی تحقیق کیلئے کیوں نہ کمیشن بنا دیا جائی پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ ہم کمیشن کے قیام کے خلاف ہیں ،ْ اگر کمیشن تشکیل دیا گیا تو بائیکاٹ کریں گے۔

(جاری ہے)

نعیم بخاری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت فیصلہ کرے اور اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ہم اپنا کیس صحیح انداز میں پیش نہیں کر پائے تو بھی آنے دیں اور اگر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ وزیر اعظم کا کیس کمزور ہے تو بھی فیصلہ دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ حسن نواز اور حسین نواز اوورسیز پاکستانی ہیں ،ْعدالت سمجھے تو ہم تحقیقات میں رکاوٹ نہیں بنیں گے ،ْکمیشن کی تشکیل یا خود سماعت سے متعلق عدالت جو فیصلہ کرے گی ہمیں منظور ہو گا۔

چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ سے استفسار کیا کہ آپ کو کمیشن کے قیام کے سلسلے میں کیا ہدایات ملی ہیں سلمان اسلم بٹ نے جواب میں کہا کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن دوسری جانب سے کمیشن بنانے سے انکار سامنے آیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے فریق کو چھوڑیں آپ اپنا موقف بتائیں سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اب تک وزیراعظم کے خلاف کوئی ثبوت ریکارڈ پر نہیں کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے یا کمیشن بنائے جائے ہمیں ہر فیصلہ قبول ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہاکہ سانپ کا ڈسا رسی کے بل سے بھی ڈرتا ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ بینچ کوئی فیصلہ سنا دے کیونکہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔لوگ اصرار کر رہے ہیں کہ فیصلہ 5 رکنی بینچ ہی دے ،ْ اگر کیس ہار بھی گئے تو قوم سمجھے گی کہ عدالت کا فیصلہ درست تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس کا خود فیصلہ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ،ْہم تمام فریقین کو سننا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کمیشن بنانے کا مقصد یہ ہے کہ بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ کیس ثابت کرنے کا موقعہ نہیں ملاتاہم چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا کہ وہ یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کمیشن بنانا یا نہ بنانا عدالت کا استحقاق ہے لیکن ہم نے آپ سے تجاویز دستاویز کے حتمی ہونے کے نکتے پر مانگیں تھیں۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انھیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے جس میں ان کے پاس تعطیلات سے قبل صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں اور ان دو دنوں کے دوران مقدمے کے حل ہونے کے امکانات نہیںلہذا اس مقدمے کی سماعت آئندہ سال جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دیتے ہیں۔

شیخ رشید احمد نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر اپنی تعطیلات موخر کر دیں تو ایک انتہای اہم نوعیت کا مقدمہ حل ہو سکتا ہے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے شیخ رشید احمد سے کہا کہ آپ نے پتا نہیں پڑھے ہیں یا نہیں ،ْمگر ہمیں ہزاروں صفحات پڑھنا ہوں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا کہ صرف سماعت ہی نہیں کرنی بلکہ اس کیس کا فیصلہ بھی لکھنا ہے اور وہ عملاً 15 دسمبر کے بعد بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ مفاد عامہ کے کیس میں عدالت پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے، نہیں چاہتے کہ جس کے خلاف فیصلہ آئے وہ کہے کہ ہمیں نہیں سنا گیا جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ممکن نہیں ہے کہ دو دنوں میں سماعت کر کے فیصلہ کیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سب کا احترام کرتے ہیں کہ انہوں نے بینچ پر اعتماد کیا۔انہوںنے کہاکہ میں ریٹائر ہورہا ہوں، فل کورٹ ریفرنس کے بعد کسی بینچ میں نہیں بیٹھوں گا ،ْپاناما کیس کی سماعت ازسرنو ہوگی۔

بعد ازاں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آج کی سماعت کو جزوی سماعت نہ سمجھا جائے۔واضح رہے کہ پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے سربراہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی رواں ماہ 31 دسمبر کو ریٹائر ہو جائینگے ان کے بعد جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ نئے بینچ کی تشکیل کے بعد کیس کی نئے سرے سے سماعت ہوگی اور وکلاء کو دوبارہ دلائل دینا ہوں گے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات